تعبیرِ ادب ” پروین شاکر ”

Parveen Shakir

Parveen Shakir

نرم و نازک الفاظوں کے ساتھ گفتگو اور شائستہ طرزِ ادا اور شاعری کے ذریعے دل و دماغ پر چھا جانے والی خاتون کیلئے دل کے دریچے واکئے جائیں تو مشکل نہیں کہ ایک ہی نام ہمارے ذہنوں پر آئے ! ” پروین شاکر ” یہ نام صرف نام نہیں بلکہ اردو ادب اور شاعری میں پاکستان کی نیک نامی کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ بھی ہے۔ ان کے نرم و نازک لہجے نے پاکستان سمیت دنیا بھر کے لوگوں کے دلوں میں گھر کر لیا ، ان کے غزلوں نے کئی غزالی آنکھوں کو سہانے خواب اور پھر اس کی تعبیر دیکھنے کا ہنر سکھایا۔ جذبوں کو بہترین الفاظوں کی شکل میں ڈھالنے اور پھر ان سب کو یکجا کر کے شعروں کی شکل دینے والی شاعرہ گو کہ آج ہم میں نہیں ، اور انہیں ہم سے بچھڑے ہوئے اٹھارہ سال کا طویل عرصہ بیت چکا ہے، مگر اہلِ علم و ادب کے دلوں میں آج بھی ان کا مقام زندہ و تابندہ ہے۔ ان کے کلام کی تازگی آج بھی ان کے چاہنے والوں کے دلوں میں زندہ ہے اور انہیں اپنے حصار میں گھیرے ہوئے ہے۔

پروین شاکر 24 نومبر 1952ء میں پیدا ہوئیں ، پروین شاکر نے دو انڈر گریجویٹ ڈگری پہلے انگریزی لٹریچر میں اور دوسرا Linguistics میں حاصل کیا ، جامعہ کراچی سے M.Aکی ڈگری اسی عنوان کے تحت حاصل کی، پھر انہوں نے Ph.D کی ڈگری بھی حاصل کی، پروین شاکر نے M.Aکی ایک ڈگری ہارورڈ یونیورسٹی امریکہ سے بھی حاصل کر رکھا تھا، نوجوانی ہی سے شعرکہنے کا ہنر انہیں آ گیا تھا اس کے ساتھ ساتھ موصوفہ نے نو سال تک استاد کی حیثیت سے کارہائے نمایاں انجام دیا اس کے بعد شعبۂ کسٹم ،گورنمنٹ آف پاکستان میں اپنے فرائضِ منصبی بھی ادا کرتی رہیں۔1986ء میں وہ سیکنڈ سیکریٹری ، سی بی آر مقرر کی گئیں۔پروین شاکر کو ان کی خدمات کے اعتراف میں ان کی کتاب ” خوشبو” پر آدم جی ایوارڈ اور پھر پاکستان کا سب سے اعلیٰ اعزاز (Pride of Performance)سے بھی نوازا گیا، موسم آتے جاتے رہے ، ماہ و سال گزرتے رہے مگر ان کے چاہنے والے آج بھی ان کی شاعری سے دل لگائے بیٹھے ہیں۔

اب کون سے موسم سے کوئی آس لگائے
برسات میں بھی یاد نہ جب ان کو ہم آئے
پروین شاکر شاعرہ تو کم عمری میں ہی بن گئیں تھیں مگر وقت کے پنکھڑیاں چُنتے چُنتے ، آئینہ در آئینہ خود کو ڈھونڈتی ، شہرِ ذات کے تمام دروازوں کو پھلانگتے ، شاعرہ کی منزل تک پہنچی۔ بات پروین شاکر کی نظم کی کی جائے یا غزل کی، کتابوں کا ایک بہترین گلدستہ تیار کیا جا سکتا ہے مگر جہاں ہر لفظ ان کی پذیرائی کے گن گانے میں محو ہوں وہاں میرے چند الفاظ قارئین و سامعین حضرات کو کہاں مطمئن کر پائیں گے مگر ہاں ان ہی چاہنے والوں میں راقم بھی شامل ہے اس لئے ان سے محبت کا قرض نبھانے کی سعی کر رہا ہوں۔
کیا کیا نہ خواب ہجر کے موسم میں کھو گئے
ہم جاگتے رہے تھے مگر بخت سو گئے
کیا جانئے، افق کے ادھر کیا طلسم ہے
لوٹے نہیں زمین پہ، اک بار جو گئے
انسان کے کردار اور اس کی مجموعی شخصیت کی تعمیر میں ماحول کا بڑا اثر ہوتا ہے لیکن ایک اور اہم شے جو کسی بھی انسان کی شخصیت سازی میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے اور کبھی کبھی انسان کو اس کی شخصیت مکمل ہونے کے بعد بھی کسی نئے ماحول میں کھینچ لاتی ہے اور اس کی زندگی کا دھارا ہی بدل دیتی ہے۔

Parveen Khud Kalami

Parveen Khud Kalami

اس کا نام ہے کتاب!چونکہ کتاب کا ذکر چل پڑا ہے تو پروین شاکر کی چند خوبصورت کتابوں کا تذکرہ نہ کرنا اردو ادب اور شاعری سے سراسر زیادتی کے مترادف ہو گا ،اس لئے ان کی وہ کتابیں جو شائع شدہ ہیں اور لوگوں میں کافی مقبول بھی رہی ہے ، ” خوشبو ” (1976ئ)”سد برگ ” (1980ئ) ”خود کلامی ” ( 1990ئ) ” انکار ” (1990ئ) ” ماہِ تمام ” (1994ئ) اور ” کفِ آئینہ”سرِفہرست ہیں۔(کتابوں کے ماہ و سال جو لکھے گئے ہیں وہ شاید قطعی نہ ہوں، ہو سکتا ہے کہ کہیں کوئی کوتاہی رہ گئی ہو جس کے لئے راقم معذرت خواہ ہے)،خوبرو شاعرہ نے ایک پاکستانی ڈاکٹر نصیر علی سے شادی کی ، ان کا ایک بیٹا سید مراد علی بھی ہے، لیکن ان کی شادی کا یہ سفر زیادہ طویل المدت نہیںتھا اور معاملہ Divorceپر جا کر اختتام پایا۔ پروین شاکر کی شاعری میں درد، اور لذتِ انتظار کی کیفیت بھی ملتی ہے جیسے کہ یہ ان کا یہ شعر:
گھر کا دروازہ کھلا رکھا ہے
وقت مل جائے تو زحمت کرنا
اردو کو پروین شاکر نے اپنے جذبوں اور فن کے اظہار کے طور پر اپنایا اور خود کو لازوال کر دیا، پروین شاکر کے دور میں بہت سے شعر اور شعراء اس سے بہتر بھی ہوں اور ہو سکتا ہے کہ اس سے بدتر بھی ہوں لیکن 1980-90کی دہائی میں اردو ادب کے جن شعرائے کرام کو سندِ قبولیت ملی ان میں سرِفہرست نام پروین شاکر کا ہی ہے۔

خوبصورت اور دل کو لُبھا دینے والی غزلیں ان کا خاصہ رہا ہے جبھی تو نوجوان نسل میں موصوفہ بہت زیادہ مقبول ہیں۔
ڈوبی ہیں میری انگلیاں خود اپنے لہو میں
یہ کانچ کے ٹکروں کو اٹھانے کی سزا ہے
26دسمبر 1994ء کی ایک صبح جب پروین اپنے دفتر جانے کیلئے گھر سے نکلیں تو قریب ہی موڑ پر بس کے ایک حادثے میں شدید زخمی ہونے کے بعد ہم سب سے روٹھ کر عدم کو سدھار گئیں۔ خدا رب العزت ان کے درجات بلند فرمائے (آمین)
سُرخ پھولوں سے ڈھکی تُربتِ پروین ہے آج
جس کے لہجے سے ہر اک سمت ہے پھیلی خوشبو
فکرِ تاریخِ اجل پر یہ کہا جاوید نے
پھول! کہہ دو ہے یہی باغِ ادب کی خوشبو

تحریر : محمد جاوید اقبال صدیقی