تیس اکتوبرکے بعدکا کپتان

Imran Khan

Imran Khan

آخر کار پاکستان میں تبدیلی کے آثار نظر آنے شروع ہو ہی گئے اور اس تبدیلی کا سہرا پاکستانی میڈیا  کے سر ہے جس نے بے بہا مشکلات کے باوجود عوام کولمحہ بہ لمحہ باخبر رکھا اگر آج بھی پاکستان میں صرف سرکاری  چینل ہی چل رہا ہوتا تو کبھی بھی عوام عمران خان کے جلسے کو براہ راست نہ دیکھ پاتے اورپریس میڈیا بھی اس موقع پر پیچھے نہیں رہا اخبارات نے بھی اس جلسے کو خصوصی اشاعت میں جگہ دے کر ثابت کردیا کے پاکستان کے حکمران تو کسی کی غلامی کر سکتے ہیں ۔لیکن صحافت کو کوئی بھی غلام نہیں بنا سکتا ۔اب کہنے والے جو مرضی  کہتے رہیں لیکن سچ تو یہی ہے کہ 30اکتوبر کومینار پاکستان اور پھر کراچی میں مزارقائدکے بڑے میدان میں لاکھوں لوگ موجود تھے اب کوئی کہتا ہے ق لیگ اور پیپلزپارٹی نے عمران خان کے جلسے میں اپنے کارکنوں کو شامل کیااور کوئی کہتا ہے ایجنسیوں نے عمران خان کاجلسہ کامیاب کرنے کے لیے مدد کی بہر حال عمران خان کا 30اکتوبر کا مینار پاکستان میں ہونے والا سیاسی جلسہ کامیاب ہو ا۔جس میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ شامل ہوئے وہ چاہے لاہور سے نکلے یا کسی دوسرے شہر سے آئے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتاعمران خان کی اس قدر مقبولیت سے اس وقت پاکستان کی سب سیاسی پارٹیاں اندرونی طور پر بہت پریشان ہیں ۔بظاہر تو حکمران جماعت یعنی پیپلز پارٹی بہت خوش نظر آتی ہے لیکن عمران خان کی عوامی مقبولیت نے پیپلز پارٹی کو اندرونی طور پر ہلا کر رکھ دیا ہے اور اب خاص طور پر پنجاب میں پیپلز پارٹی کو دو پارٹیوں کا سامنا کرنا پڑے گاجو ن لیگ کو جمہوری انداز میں اپنی باری کا انتظار کرنے کا کہہ رہے تھے عوام کی بڑی تعداد نے عمران خاں کے جلسے میں شامل ہو کر ان کو آئینہ دیکھا دیا ہے اور اب عوام نے سیاسی میچ کو جیتنے کے لیے گیند عمران خاں کے ہا تھ میں تھما دی ہے اور اپنی ٹیم میں کس کو کھلانا ہے اس کا بھی پورا اختیار ان کے پاس ہے۔ اب عمران خاں کویہ میچ جیتنے کے لیے مخالف کھلاڑیوں کو جلد آئوٹ کرنے اور اچھی بیٹنگ کے ساتھ ساتھ اپنی ٹیم یعنی تحریک انصاف میں شامل کرپٹ اور نا اہل کھلاڑیوں کو بھی رن آئوٹ کرتے رہنا ہوگا کیونکہ جب اپنے ہی کھلاڑی کرپٹ اور نااہل ہونگے تو نہ صرف ٹیم میچ ہار جاتی ہے بلکہ جگ ہنسائی بھی بہت ہوتی ہے۔ پھر اس بار میچ بھی کچھ مختلف ہے یہ میچ آپ کو پاکستانی قوم کی قسمت بدلنے کیلئے کھیلنا ہے جو پچھلے65برس سے ہر میچ ہارتی آئی ہے اور سیاست دان ہر میچ جیتتے آئے ہیں ساری زندگی کی ہار نے پاکستانی قوم کو بہت کمزور کردیا ہے مجھے امید نہ تھی کے اب عمران خاں کے جلسے میں اتنے لوگ آئیں گے لیکن شاید اللہ تعالیٰ کو یہی منظور ہے جو پزرائی اہل لاہور نے عمران کو دی ہے اس کی امید مجھے تو کیا شاید عمران کو خود بھی نہ تھی۔ عوام نے تو اپنا فرض ادا کر دیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کے اب وہ کس طرح اپنا فرض ادا کرتے ہیں ۔اب ان کے کندھوں پر پاکستان کے 20کروڑ عوام کی فلاح بہبود کی ذمہ داری عائد ہو چکی ہے  اور کام بہت مشکل تو ہے مگر ناممکن نہیں ۔پاکستان کے مسائل چوکو چھکو سے حل ہوتے نظر نہیں آتے  ان کے حل کے لیے ایک لمبی باری کھیلانا ہو گی اب عمران خان دشمن کے بونسروں سے کس طرح بچتے ہیںیہ وقت ہی بتائے گا ۔عمران خاں نے جلسہ تو کامیاب کر لیا مگر اب ان کی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں کیونکہ پہلے وہ سیاست میں ون مین شو چلا رہے تھے ۔جیسے کے کچھ دن پہلے فخر پاکستان  جناب عزت مآب ڈاکٹرعبدالقدیرخاں بھی اپنے ایک بیان میں کہہ چکے ہیںکے عمران نواز ۔زرداری پہ تنقید کی بجائے ملک کو مشکلات سے نکالنے کے لیے اپنی پالیسی کا علان کریں ڈاکٹر عبدالقدیر نے یہ بھی کہا کے عمران خان کی سیاست ابھی تک ون مین شو ہے ۔میرے خیال میں اب عمران کا ون مین شو ختم ہو کر تحریک انصاف کی صورت اختیار کر گیا ہے اور اس کے ساتھ ہی عمران کی ذمہ داریاں بھی بڑھ گئی ہیں کیونکہ اب ان کو پورے پاکستان میں اپنے مضبوط امیدوار کھڑے کرنے ہوں گے جو بہت ہی مشکل کام ہو گا کیونکہ اگر عمران ان لوگوں کو سامنے لائیںگے جن کو عوام پہلے کئی مرتبہ آزما  چکی ہے یا انھیں کے چاچے بابے لائیں گے جو کبھی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ میں شامل ہو کر ملک کو لوٹ چکے ہیں تو عوامی حلقوں میں تحریک انصاف کی مقبولیت عارضی ہوگی۔میرے خیال میںاگر عمران مخالف سیاست دانوں سے اثاثوں کو ضاہر کرنے کا کہنے سے پہلے اپنے اور اپنے ساتھیوں کے اثاثوں کی تفصیل عوام کے سامنے رکھ دیتے تو زیادہ بہتر ہوتا خیر اب بھی وہ ایساکر دیں تو بھی کام چل سکتا ہے ۔جہاں عمران اثاثے نہ ظاہر کرنے والے سیاست دانوں کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک چلانے جا رہے ہیں وہاں عوام کو با شعور کرنے کے لیے بھی ایک تحریک چلائیں کیونکہ پاکستان کی آدھی سے زیادہ آبادی تو آج تک یہ جانتی ہی نہیں کے پاکستان کے ساتھ اسلامی جمہوریہ کیوں لکھا اور بولا جاتاان پڑھ تو ان پڑھ پڑھے لکھے پاکستانی بھی آئین پاکستان کے مطابق اپنے حقوق وفرئض نہیں جانتے  ۔دنیاکی تاریخ گواہ ہے جو قومیں باشعور نہیں بنتی ان کا مستقبل تاریخ سے ساریخ ہوتا جاتا وہ قومیں جب تک شعور کی منزلوں کو سفر طے نہیں کرتیں تب تک ان حال و مستقبل روشن نہیں ہوتا لیکن عمران خاں کو مبارک ہو پاکستانی قوم بے شعور نہیں ہے بلکہ بہت با شعور ہے بس کچھ حالات کی گرد اتارنے کی ضرورت ہے جو حکمرانوں نے ڈال رکھی ہے کیونکہ عوام پچھلے65برس سے سیاست دانوں کے خوبصورت تقریریں اور خطاب تو بہت سن چکی ہے جن سیاست دان بڑے بڑے وعدے اوردعوے بھی کرتے آئے ہیں مگر آج تک دوسروں پر تنقید کے سوا کسی نے بھی کچھ نہیں کیا کسی نے بھی عوام سے کیے گے وعدے پورے کیے ہیں اور نہ دعوئوں پر کوئی پورا اترا ہے ٹھیک اسی طرح عمران خان کی تقریر تو بہت ہی خوبصورت ہے جس میں انھوں نے بلوچستان کے مسئلے کی بھی کی ہے خواتین کے حقوق کی بھی بات کی ہے اور اقلیتوں کو بھی حقوق دلانیں کی بات کی عمران خاں نے 30اکتوبر کی تقریر میں اور بھی بہت خوبصورت باتیں کی مگر اب مہنگائی ۔بے روز گاری۔دہشتگردی ۔بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کی ماری عوام کے پیٹ باتوں سے بھرتے نظر نہیں آتے۔آج پاکستان کوجن چیلنجز کاسامنا ہے ان کا مقابلہ کوئی بھی سیاست دان اکیلا نہیں کر سکتا اس بات کا ہرگز یہ مطلب نہیں کے اسے دوسرے سیاست دانوںکی ضرورت ہے بلکہ کوئی ایک مخلص لیڈربھی اگر پوری قوم کو ساتھ لے کر چلے تو اسے کسی دوسرے سیاست دان کی ضرورت پڑے گی اور نہ ہی کسی غیر سے مددمانگنے کی ضرورت پیش آئے گی ۔ تحریر۔۔امتیاز علی شاکر