امریکی فوج میں کمی کے سلسلے میں پہلا بڑا قدم

american soldiers

american soldiers

امریکی محکم دفاع نے ایک دہائی جاری رہنے والی جنگی مہمات کے بعد امریکی فوج میں کمی کے سلسلے میں پہلا بڑا قدم اٹھاتے ہوئے امریکی بری فوج اور میرین کور کے اسی ہزار فوجیوں کی نوکریوں کے خاتمے کے منصوبے کا اعلان کر دیا ہے۔امریکی محکم دفاع کو آنے والے دس برس میں چار سو ستاسی ارب ڈالر کی کٹوتی کا سامنا ہے اور آئندہ مالی سال کے لیے پینٹاگون کا بجٹ پانچ سو اکتیس ارب ڈالر سے کم کر کے پانچ سو پچیس ارب ڈالر کر دیا گیا ہے۔جمعرات کو واشنگٹن میں فوج کی تنظیمِ نو کے منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے امریکی وزیرِ دفاع لیون پنیٹا نے کہا ہے کہ پانچ برس کے عرصے کے دوران اسی ہزار فوجیوں کو ملازمت سے فارغ کر دیا جائے گا اور کچھ فوجی اڈے مکمل طور پر بند کر دیے جائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ دو ہزار دس میں امریکی فوجیوں کی تعداد پانچ لاکھ ستر ہزار تھی جسے دو ہزار سترہ تک چار لاکھ نوے ہزار کر دیا جائے گا۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ امریکہ زمین پر کسی بھی دشمن کو شکست دینے کا صلاحیت برقرار رکھے گا اور خصوصی دستوں اور ڈرونز میں اضافہ ہوگا۔صحافیوں سے بات چیت میں ان کا کہنا تھا کہ نئے منصوبے کے تحت توجہ کا مرکز عراق اور افغانستان جیسی بڑے پیمانے پر لڑائیوں سے ہٹ کر اب اہم قومی معاملات ہوں گے جن کے تحت خصوصا مشرقِ وسطی، ایشیا اور بحرالکاہل کے علاقے میں امریکی فوج کو مضبوط کیا جائے گا۔امریکی وزیرِ دفاع کا کہنا تھا کہ ہمارا مقصد اس موقع کو استعمال کرتے ہوئے دنیا کی سب سے طاقتور فوج کو برقرار رکھنا اور اسے کھوکھلا نہ ہونے دینا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ مشکل ہوگا۔ یہ ایک مشکل چیلینج ہے۔ خسارے میں کمی کے منصوبے پر عمل میں یہ مشکل آتی ہے۔ خسارے میں کمی کے بارے میں بات کرنا آسان ہے لیکن ایسا کرنا بہت ہی مشکل۔بیان کے مطابق کٹوتی کے منصوبے سے ہیوی آرمرڈ یونٹ سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔لیون پنیٹا کے مطابق امریکہ ایف پینتیس جیٹ طیاروں کی خریداری کا عمل جاری رکھے گا تاہم ریڈار پر نہ دکھائی دینے والے سٹیلتھ طیاروں کی خریداری کا عمل سست پڑ جائے گا۔امریکی وزیرِ دفاع کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں ہم نے اس دفاع کا اعلی خیال پیش کیا ہے جس کی مستقبل میں ہمیں ضرورت ہوگی اور یہ بچت کرنے کے ساتھ ساتھ کیا جائے گا، وہ بچت جو ضروری ہے لیکن اس سے ہمارا قومی دفاع کمزور نہیں ہوگا۔امریکی صدر براک اوباما نے فوج میں کمی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنگ کا عشرہ گزر گیا ہے اور امریکہ کو معاشی ترقی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔صدر براک ا وباما نے پینٹاگان میں فوج میں کمی کے منصوبے کا اعلان کرتیہوئے کہا کہ جنگ کی لہر اب اتر رہی ہے اور امریکہ کو اپنی معاشی طاقت کو بجال کرنا ہے۔فوج میں کمی کے منصوبے کے تحت امریکہ اگلے دس سالوں میں چار سو پچاس ارب ڈالر بچائے گا۔ اس منصوبے کے تحت دسویں ہزار امریکی فوجیوں کی ملازمت ختم ہو جائے گی۔ امریکہ کا سالانہ دفاعی بجٹ دس کھرب ڈالر ہے۔صدر اوباما نے ہتھیاروں یا فوجیوں میں کمی کے کسی واضح منصوبے کا اعلان نہیں کیا اور یہ منصبوے اگلے سال مالی بجٹ میں پیش کیے جائیں گے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ اگلے سال کے مالی بجٹ میں فوجی بجٹ میں دس سے پندرہ فیصد کمی کا اعلان کیا جائے گا۔مالی خسارے کو کم کرنے سے حوالے امریکی کانگریس کسی منصوبے پر متفق نہیں ہو سکی تھی اور امید کی جا رہے کہ اگلے مالی بجٹ میں دفاعی بجٹ میں سیپانچ سو ارب ڈالرکی کمی کر دی جائے گی۔امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہاں ہماری فوج دبلی ہو گی لیکن دنیا کو جان لینا چاہیے کہ امریکہ اپنی فوجی برتری کو برقرار رکھے گا۔صدر اوباما نے کہا کہ امریکہ جنگی عشرے کا ورق الٹ رہا ہے اور یہ تبدیلی کا وقت ہے۔ صدر اوباما نے کہا باوجود اس کے کہ امریکی فوجی اب بھی افغانستان میں لڑائی لڑ رہے ہیں جنگ کی لہر کم ہو رہی ہے۔صدر اوباما نے کہا دنیا میں امریکی طاقت کی بنیاد اس کی مضبوط معیشت ہے اسے بحال کرنا بہت ضروری ہے۔صدر اوباما نے کہا کہ امریکہ بحرالکاہل میں اپنی طاقت میں اضافہ کرے گا۔صدر اباما نے الیکشن کے سال میں اپنے حریفوں کی تنقید سے بچنے کے لیے کہا کہ اب بھی دفاعی بجٹ میں اضافہ ہو گا لیکن یہ اضافہ کم رفتار سے ہو گا۔امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا نے کہا کہ فوج میں کمی کے منصوبے کے باوجود امریکی فوج ایک ہی وقت میں ایک سے زیادہ چلیجنوں سے نمٹنے کی صلاحیت برقرار رکھے گی۔وزیر دفاع نے کہا کہ عراق میں جنگ کے خاتمے اور افغانستان میں فوجیوں کی کمی کی وجہ امریکہ کو اتنی بڑی فوج رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔امریکہ کے صدر براک اوباما نے امریکی خسارے میں کمی اور معیشت کی بحالی کے منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے ملک کے امیر شہریوں سے کہا ہے کہ وہ زیادہ ٹیکس دیں۔وائٹ ہاس میں منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے انہوں نے طبی سہولیات میں کمی کا اعلان بھی کیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ کاروباری اور امیر افراد کو زیادہ ٹیکس ادا کرنے چاہیئیں۔اس منصوبے کے تحت آئندہ عشرے کے دوران تین کھرب ڈالر سے زیادہ کی بچت کی جائے گی اور اس رقم کو صدر کے روزگار کی فراہمی کے منصوبے پر خرچ کیا جائے گا۔ بچائے جانے والے تین کھرب ڈالرز میں سے تقریبا نصف ٹیکس کوڈ کو نئی شکل دے کر اس کی شرح میں اضافے کے نتیجے میں حاصل ہوں گے۔امریکی کانگریس کے ریپبلکن ارکان نے جو کہ ٹیکس میں اضافے کے مخالف ہیں، اس منصوبے پر کڑی تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ اس سے روزگار کے مواقع میں اضافہ نہیں ہوگا۔اپنی تقریر میں امریکی صدر نے کہا کہ اگر امریکہ اب حرکت میں نہیں آیا تو قرض کا بوجھ آنے والی نسلوں پر پڑے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ واشنگٹن کو اخراجات کرتے ہوئے اپنے ذرائع کو مدِنظر رکھنا ہوگا۔ ہمیں ان شعبوں میں کمی کرنا ہوگی جس کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے تاکہ ان شعبوں میں ادائیگیاں ہوں جہاں اصل میں ضرورت ہے۔صدر اوباما کے اس منصوبے میں عمر رسیدہ امریکیوں کے لیے طبی سہولیات کے پروگرام میں ڈھائی سو ارب روپے کی کٹوتی کی تجویز بھی شامل ہے تاہم وائٹ ہاس کے ذرائع کے مطابق امریکی صدر میڈی کیئر کی رقم میں کمی کی کسی بھی تجویز کو اس وقت تک ویٹو کر دیں گے جب تک امیر امریکیوں پر زیادہ ٹیکس دینے کی تجویز منصوبے میں شامل نہیں ہوتی۔صدر اوباما کے مطابق اس منصوبے کے تحت اس بات کو یقینی بنایا جا سکے گا کہ زیادہ امیر لوگ بھی اسی شرح سے ٹیکس ادا کریں جس طرح کم دولت مند لوگ دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ  مڈل کلاس خاندانوں کو کروڑ پتی یا ارب پتی افراد سے زیادہ ٹیکس نہیں دینا چاہیے۔ اس بات پر بحث کرنا ناممکن سا ہے۔اطلاعات کے مطابق ٹیکس کی شرح میں اضافے کے اس منصوبے کا نام ارب پتی سرمایہ کار وارن بفیٹ کے نام پر بفیٹ رول رکھا جائے گا۔ وارن بفیٹ کا کہنا ہے کہ امریکی ٹیکس نظام میں خامیوں کا فائدہ اٹھا کر امیر ترین لوگ نسبتا کم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔اس کی وجہ سے ہے کہ سرمایہ کاری سے حاصل ہونے والی کمائی پر شرحِ ٹیکس تنخواہ کی نسبت کم ہوتی ہے۔ نئی مجوزہ شرح ٹیکس ان امریکیوں پر لاگو ہوگی جو دس لاکھ ڈالر سالانہ یا اس سے زیادہ کماتے ہیں۔امریکہ میں معیشت سست رفتاری کا شکار ہے اور یہاں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے جو نو فیصد تک پہنچ گئی ہے۔