حکمرانوں عوام کے صبر سے مت کھیلو

M A Tabassum

M A Tabassum

پاکستان میں بجلی کے بحران کو کئی سال گزر گئے مگر کسی حکومت نے اس پر سنجیدگی سے کام نہیں کیا۔جب بھی کسی پارٹی نے اپنی سیاست کو چمکانے کے لیے احتجاج کیا یا کسی تاجر برادری نے احتجاجی دھرنے دئیے۔

حکومت نے سوائے اس کے کہ فوری طور پر ہنگامی اجلاس بلایا، میڈیا میں دو چار باتیں کیں اور بس اس کے علاوہ کچھ نہیں کیا، لاکھوں روپے لگا کر ہنگامی اجلاس بلایاجاتا ہے اور نتیجہ میں دو چار دن بجلی ٹھیک ہو جاتی ہے اس کے بعد پھر وہی روٹین۔بجلی کی کمی کو پوری کرنے کے لیے کوشش کی بھی گئی تووہ بھی بے سود ، عوام کے دئیے ہوئے مینڈیٹ کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں ،یہ سب اس لئے کیا جا رہا ہے تاکہ عوام آئندہ سے کسی کوبھی اعتمادکا ووٹ نہ دے سکے،عوام کے اعتماد کیساتھ اس طرح سے کھیلا جائے کہ عوام اس قدر بے حال ہوجائے کہ اپنی آنے والی نسلوںکوبھی منع کردے کہ کبھی بھی پیپلزپارٹی کوہمدردی اور اعتماد کا ووٹ نہ دینا،حکمرانوںعوام کے صبر سے مت کھیلو۔ایسا نہ ہوکہ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریزہوجائے اور عوام تمہارے محلوں پر قبضہ کرلیں،حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی (عاتکہ)کہتی ہیں کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بسترپرسونے کے لیٹتے تھے تونیند ہی اڑجاتی تھی،بیٹھ کررونا شروع کردیتے تھے،میں پوچھتی تھی ،اے امیرالمومنین ،کیا ہوا؟وہ کہتے تھے مجھے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کی خلافت ملی ہوئی ہے،اور ان میں مسکین بھی ہیں،ضعیف بھی ہیں،یتیم بھی ہیں،مظلوم بھی ہیں،مجھے ڈرلگتا ہے کہ اللہ تعالی ٰ مجھ سے ان سب کے بارے میں سوال کرینگے،مجھ سے جوکوتاہی ہوئی تومیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوکیا جواب دونگا۔

سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے تھے اللہ کی قسم اگر دجلہ کے دور دراز علاقے میں بھی کسی خچر کوراہ چلتے ٹھوکر لگ گئی تومجھے ڈرلگتا ہے،کہیں اللہ تعالیٰ مجھ سے یہ سوال نہ کردیں،اے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو نے وہ راستہ ٹھیک کیوں نہیں کروایا تھا،یہ تھے خلیفہ حجرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنہیں اپنی رعایا کا اس قدر خیال تھا اور ایک ہیں ہمارے حکمران جن پر نہ توعوام کی بدعائیں اثرکرتی ہیں،اور نہ ہی ان حکمرانوں کو اللہ کے غیث وغضب کا ڈر ہے،عوام حکمرانوں کوجھولیاں اٹھا اٹھا کر بدعائیں دیتے ہیں لیکن سب بے اثر،ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا، کیا کبوتر بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کرے تو وہ چھپ جاتا ہے؟ہماری حکومت بس یہی کر رہی ہے مگر کبوتر چھپا نہیں بلکہ اس نے اپنے لیے بہت سے خطرات پیدا کئے ہوئے ہیں ۔کاروباری لحاظ سے جو نقصان ہو رہا ہے ۔وہ تو ہو ہی رہا ہے جو کہ سب کو نظر بھی آتا ہے۔مگر معزز قارئین آپکی توجہ ایسی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں جو ہماری قوم کو دیمک کی طرح کھا رہی ہے اور ہمارے حکمران خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں ۔بجلی کے اس بحران میں مہنگائی کا جن بوتل سے باہر آ کر کھلم کھلا لوگوں کے ذہنوں پر اثر انداز ہو رہا ہے، بجلی نہ ہونے کی وجہ سے کاروباری حلقوں میں جہاں دس لوگ کام کرتے تھے وہاں پانچ لوگ کام کر رہے ہیں، جو پانچ لوگ کام سے فارغ ہو گئے انہوں نے اخراجات کہاں سے پورے کرنے ہیں ۔بچوں کی فیسیں کہاں سے ادا کرنی ہیں،بجلی جو آتی نہیں اس کے بھاری بھر بل کہاں سے ادا کرنے ہیں،ڈاکٹرکی دوائوں کے پیسے کہاں سے دینے ہیں، اس قدر بے روزگاری ہوچکی ہے کہ اب نوکری تو جلدی ملے گی نہیں کیوں کہ لوڈشیڈنگ کی وجہ سے فیکٹریاں،کارخانے توبندپڑے ہیں ۔ اپنے اخراجات کو پورا کرنے کے لیئے انسان غلط کو درست ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

دن دیہاڑے ڈاکے ڈالتا ہے،چوریاں کرتا ہے،ناجانے پیٹ کی آگ کو بجھانے کی غرض سے کیا کچھ کرنا پڑتا ہے، اور معاشرے میں بگاڑ اور شر جیسی لعنتیں جنم لیتی ہیں ۔ ہمارے پروفیسر صاحب ہمیں بتایا کرتے تھے کہ اچھی ورکنگ پرفارمنس کیلئے ورکنگ ایریا کا ماحول اچھا ہونا چاہئے ، مثلاً درجہ حرارت، دیواروں کے کلر ، اور لائٹوں کی روشنی ، وغیرہ ۔ مگر یہاں تو لائٹ ہی نہیں ہوتی اندھیرے اور گرمی میں کام کرنا پڑھتا ہے ۔اس صورت حال میں لوگوںکی کام کرنے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے اور ذہنی پریشانی کا سبب بنتی ہے ،اسی ذہنی پریشانی میں ورکر گھر پہنچتے ہیں تو ان کی برداشت کی طاقت تقریبا ختم ہو چکی ہوتی ہے ۔ چھوٹی سی بات پرغصہ آتا ہے ۔ دوسری طرف گھر والے بھی بجلی کے بار بار بند ہونے کی وجہ سے پریشان ہوتے ہیں ۔ ایک ماں بچوں کی پر ورش بھی کر رہی ہوتی ہے اور گھر کے کام کاج بھی، بجلی کی لوڈشیڈنگ نے زندگی میں سکون حرام کر رکھا ہے۔خاوند اپنی پریشانی میں گھر جاتا ہے اور بیوی پہلے سے پریشان ہوتی ہے اگر کوئی بات بیوی کے منہ سے نکل گئی تو اس کی خیر نہیں اور اگر خاوند نے کوئی غلط کر دیا تو اس کی خیر نہیں نتیجہ میں گھریلو پریشانیاں اور ناچاقیاں جنم لیتی ہیں ۔میاں بیوی تو دونوں لڑتے ہیں یہاں مگرنقصان بچوں کاہوتا ہے۔

وہ بچے جنہوں نے کل ہماری اس ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالنی ہے۔ ان کی پرورش ایسے ماحول میں ہوگی تو ان کی ذہنی نشوونما پر بہت برا اثرپڑتا ہے۔جو نسل ان دس سالوں میں جوان ہوئی اس کو اپنا مستقبل نظر نہیں آتا۔ضروریا ت بڑھ گئی ہیں اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے ہے۔نوجوان غلط طریقہ کار اختیار کرتے ہیں اور نتیجہ میں قتل ،چوری ڈکیتی کی وارداتیں جنم لے رہی ہیں اور ان سب وارداتوں کے ذمہ دار حکمران ہیں ۔اور یہ ہے وہ پلان جو بیرونی طاقتیں کیے بیٹھی ہیں۔ہماری موجودہ قوم تو اور بھی 10سال گزار سکتی ہے مگر آنے والی نسل تباہ ہوچکی ہے۔یہودی اور بھارتی اور امریکی ہماری ذہانت اور بہادری پر خوفزدہ ہیں جب وہ لڑ کر کچھ نہیں کر سکے تو اب یہ سازشیں شروع کیں ہیں اور ہمارے حکمران پچھلے10سال سے ان سازشی لوگوں کو تحفظ دے رہی ہے۔

Power Crisis

Power Crisis

ہٹلرکہتا ہے کے مجھے پڑھی لکھی مائیں دے دو میں سلجھا ہوا معاشرہ دے دیتا ہوں اور آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں بجلی دے دو ہم آپکو پرسکون معاشرہ کی گارنٹی دیتے ہیں۔خدا کے لیے اے حکمرانوں اپنی قوم کا بھی سوچو کیوں تمہیں دولت اور دنیا کی ہوس نے اندھا کر رکھا ہے۔راقم کالمسٹ کونسل آف پاکستان کے مرکزی صدر کی ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔

تحریر : ایم اے تبسم
Email: matabassum81@gmail.com
0300-4709102