خدائی ڈرون بمقابلہ سپرپاور

Sandy Hurricane

Sandy Hurricane

امریکہ میں ایک طرف سینڈی طوفان کی قیامت خیزیاں اور تباہ کاریاں جاری ہیں تو دوسری طرف صدارتی الیکشن کی رنگ رلیاں بھی عروج پر ہیں۔ ایک طرف صدارتی امیدواروں کے مابین ہونے والے مباحثوں کے تناظر میں جیت کی پیشین گوئیوں کا لنڈا بازار سجا ہوا ہے تو دوسری طرف سینڈی کے11/9 نے نیویارک تک اپنے راستے میں حائل ہر ورلڈ ٹریڈ سنٹر کو چکنا چور کردیا ۔ صدر اوبامہ نے نیویارک کو افت زدہ شہرکادرجہ دے دیا۔voa کے مطابق سینڈی سپراسٹارم نے سینڈی سے لیکر بالٹی مور و نیویارک تک13 ریاستوں میں68 لاکھ امریکیوں کوبے خانماں و بے سائباں کردیا۔

کروڑوں امریکی زندگی کی بنیادی الائشوں پانی بجلی اشیائے خوردنی سے محروم ہوگئے۔بی بی سی نے رپورٹ دی ہے کہ نیویارک شہر میں زیر زمین6 ریلوے اسٹیشن پانی میں تنکوں کی طرح بہہ گئے۔ نیویارک کےmayor نے سینڈی کو21 ویںصدی کا ہولناک طوفان کا نام دیا ہے۔ریلوے حکام کا کہنا ہے سینڈی کی وحشت نے امریکہ کا108 سالہ پرانا ریلوے انفرا اسٹرکچر تہس نہس کرڈالا۔بالٹی مور فلاڈلفیا ،نارتھ کیرولینا ،مشرقی ٹینسی، ورجینا نیوجرسی میں کہیں ڈیم ٹوٹ گئے اور کہیں تھرمل پاورز خش و خاک کی طرح بہہ گئے۔ ہزاروں عمارتیں کھیت کھلیان سرکاری املاک کا نام و نشان تک مٹ گیا۔ وائس اف امریکہ کے ہنگامی ریسکیو سروے بعنوان >سینڈی اور سیاست< میںامریکی ترجمان کرسچن ملٹر کا تبصرہ کچھ یوں درج ہے کہ امریکی الیکشن میں صرف ایک ہفتہ باقی ہے مگر سینڈی نے دونوں اوبامہ اور رامنی کی انتخابی مہم کو درہم برہم کردیا ۔

دونوں حریف جہاں اپنی ساری توجہ سینڈی کی المناکیوں پر مرکوز کئے ہوئے ہیں تو وہاں دونوں انتخابی جلسوں میں بھی جوش و خروش سے شرکت کررہے ہیں۔نیویارک ٹائمز لکھتا ہے کہ سیاست کبھی نہیں رکتی۔گو اوبامہ اور مٹ رامنی طوفان زدہ امریکیوں کی بحالی کا ماتم کرکے انکی ہمدردریاں سمیٹنے کی مہم شروع کردی مگر دوسری طرف الیکٹرانک میڈیا میں انکی انتخابی پبلسٹی جاہ و جلال کے ساتھ جاری ہے۔ وال سٹریٹ جنرل نے >تبدیلی کی لہر< کے عنوان سے لیڈنگ خبر شائع کی ہے کہ مٹ رامنی نے اجکل تبدیلی کی لہر کو بڑی شد و مد سے بلند کررکھاہے۔ ڈکوٹا میں رامنی نے جلسے سے خطاب میں واضح کیا کہ تبدیلی کی جس لہر کی بات وہ کرتے ہیں اسکے نقیب وہی خود یعنی مٹ رامنی ہیں۔اوبامہ کے حریف رامنی اپنے اپکو خود ساختہ نجات دہندہ سمجھنے کی خوش فہمی میں مبتلا ہیں اوروہ بیانگ دہل دعوی کررہے ہیں کہ وہ مقہور و بے روزگار امریکی عوام کو واشنگٹن کے غموںسے نجات دلائیں گے۔امریکہ میں صدارتی امیدواروں کے مابین مباحثات جیت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

اوبامہ اور مٹ رامنی چند روز قبل تیسرے مکالمے کی خاطر ایک دوسرے کے مدمقابل تھے۔ باراک اوبامہ حریف کے مقابلے میں زیادہ پراعتماد نظر ارہے تھے۔اوبامہ روزاول سے پہلی صدارتی ٹرم میں اندرون و بیرون جن پالیسیوں پر کاربند رہے ہیں وہ ان پر ڈٹے ہوئے ہیں جبکہ مٹ رومنی بدلتے بکھرتے عوامی موڈ کے تناظر میں ادھر ادھر چھلانگیں لگاتے رہے ۔اوبامہ رومنی کے موقف میں تواتر کے ساتھ کی جانیوالی ہیرا پھیریوں اور تبدیلی کو بار بار ہدف تنقید بناتے رہے۔ اوبامہ نے ہر بات کا مددلل انداز میں جواب دیا۔ تیسرے راونڈ میں مٹ رومنی جارہانہ انداز میں بحث و تمحیص کرتے رہے مگر مٹ رومنی مجموعی طور پر اوبامہ کی پالیسیوں سے متفق نظر ائے وہ الفاظ اور حروف کے استعمال میں ڈنڈی تو مارتے رہے تاہم وہ کئی معاملات پر اوبامہ کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے۔ مباحثے کے اکھاڑے کے ریفری ماڈریٹر شیفر تھے جنہوں نے ابتدا ہی میں موضوعات کی فہرست پہلوانوں اور دنیا بھر کے سامعین و حاظرین کو پڑھ کرسناتے رہے۔ شیفر کے موضوعات کی فہرست میں پاکستان سے متعلق ایک موضوع war in pakistan and afghnistan کا نام سنتے ہی پاکستانی دم بخودرہ گئے۔

Mitt Romney Obama

Mitt Romney Obama

حیرت تو یہ بھی تھی کہ پاکستان یا مسلم کش پالیسیوں کے تناظرمیں دونوں اوبامہ اور مٹ رومنی یکسانیت کے علمبردار نظر ائے۔ریپبلکن اور ڈیموکریٹ نے ڈرون حملوں کی وحشت و سفاکیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا ۔ پینٹاگون ملٹری ایسٹیبلشمنٹ صہیونی تھنک ٹینکس کی تیار کردہ عسکری و خارجہ پالیسیوں پر سرعام تبصروں یا تبدیلی کے دعووں پراوبامہ بش ریگن ایسے معروف صدارتی امیدواروں کے پر جلنا شروع کردیتے ہیں۔ اوبامہ اور مٹ رومنی ایران کے جوہری تنازعے پر اسرائیل کی خوشنودی کے لئے گپیں ہانکتے رہے۔ مٹ رومنی اسرائیل کے ایران کے خلاف جارحانہ عزائم کے موئید ہیں۔ رومنی نے اوبامہ پر تنقید کی صدر کی ڈھیل کیوجہ سے ایران ایٹم بم بنانے سے چار سال پیچھے ہے۔ دونوں نے عہد کیا کہ ایران کو کسی صورت میں ایٹم بم بنانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی اور تہران کے جوہری پروگرام کے خلاف فوجی قوت کا استعمال ہوگا۔

بی بی سی نے خبر دی ہے کہ پاکستان کے حوالے سے صدارتی الیکشن کی خاطر تشکیل کردہ پالیسیوں اور خارجی میدان میں پاکستان سے باندھی جانیوالی توقعات و شرائط مرتب کرنے والے مصور چاہے امریکی ہوں یا صہیونی ریپبلکن نظریات کے طرف دار ہوں یا ڈیموکریٹ کوئی مسلمان ہو یا انڈین نے اوبامہ اور رومنی کو صلاح دی ہوگی کہ امریکہ کے لئے پاکستان انے والے دنوں میں سونے کی مرغی اور اہم ترین کردارکا حامل ہوگا اسی تھیوری کی روشنی میںپاکستان کونظرانداز کرنادرست نہیں۔ رومنی نے پاکستان پر لب کشائی کی کہ اگر پاکستان ناکام ہواتو کابل میں امریکہ کے لئے خطرات و خدشات سامنے ائیں گے جو ناکامی پر متنجع ہونگے اس پر مستزاد یہ کہ پاک افغان خطے میںناٹو کے لئے خطرات بڑھ جائیں گے۔ رومنی نے اعادہ کیا کہ وہ پاکستان کو صیح سمت میں لے جانے کی مساعی جلیلہ کریں گے۔

اوبامہ نے فرنٹ لائنر اتحادی پاکستان کو یوںنوازا کہ پاکستان کوایک ایسے وقت پر اکیلا نہیں چھوڑاجا سکتا کیونکہ اسکے پاس100 سے زیادہ جوہری بم ہیں۔اوبامہ نے isi کے خلاف شعلے نکالے کہ پاکستان میں صرف isi کی چلتی ہے۔ شگاگو ٹائمز نے اپنی اشاعت میں پیشین گوئی کی ہے کہ اوبامہ مباحثوں کا مقابلہ جیت چکے ہیں اور چھ نومبر کے الیکشن میں وہ دوبارہ صدر بن سکتے ہیں۔ تاہم سینڈی طوفان کی لرزہ خیز بربادیوں کے بعد امریکیوں کی سوچ و افکار میں کیسے تضادات ابھر سکتے ہیں ان پر تبصرہ لاحاصل بحث ہوگی۔ صدارتی الیکشن کی دوڑ میں سینڈی کے کروڑوں زخم خوردہ امریکیوں کی حمایت کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اسکا فیصلہ تو بعد میں ہوگا؟ صدارتی ہما دوسری بار اوبامہ کے سر پر سجے گا یا مٹ رومنی وائٹ ہاؤس کے نئے مہاراج ہونگے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا؟ تاہم پاکستان کوَ> چاہے اوبامہ امریکہ کے صدر منتخب ہوں یا رومنی< اپنی عسکری صنعتی سیاسی سماجی اور مالیاتی جنگ خود لڑنی ہوگی ۔کہاوت ہے کہ بچھو مندر میں پیدا ہو یا مسجد میں وہ کاٹنے سے بازنہیں رہتا۔

Sandy Storm

Sandy Storm

امریکہ میں تباہی مچانے والہ سینڈی طوفان خدائی ڈرون میزائل ہے ۔ دنیا کی سپر پاور رب العالمین کی ہلکی سے جنبش پر برفانی ڈرون کا ہلکا سا جھٹکا برداشت نہ کر سکی۔ سینڈی ڈرون فطرت یذداں کی وارننگ ہے۔امریکہ کو ملت اسلامیہ اورامت مسلمہ پر جنگیں تھوپنے پاکستان پر پے درپے ڈرون میزائلوں کی یلغار کی فوری بندش کابل بغداد سے قابض افواج کی واپسی اورشام ایران پر متوقع حملوں کی شرپسندی سے تائب ہونے کے فوری اقدامات کرنے ہونگے ورنہ خدائی ڈرون کا دوسرا جھٹکا امریکہ کو صفحہ ہستی سے مٹادیگا۔

تحریر: رؤف عامر پپا