خطے میں ایرانی عزائم پر دیگر ممالک کی تشویش

us iraq troops

us iraq troops

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اگر ایران نے اس سال کے آخر میں عراق سے امریکی فوجوں کی واپسی کے بعد عراق میں اپنے قدم جمانے کی کوشش کی، تو اسے امریکہ اور سعودی عرب دونوں  کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔پرائیویٹ انٹیلی جنس فرم اسٹراٹ فار کے جورج فرائیڈمی کہتے ہیںایرانیوں نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ وہ امریکی فوجوں کی واپسی سے ایک خلا پیدا ہو جائے گا جسے  وہ پر کریں گے ۔ سعودی عرب اور ایران  کے درمیان کشیدگی میں خاصا اضافہ ہو ا ہے،مثلا یہ خبر کہ ایرانی کارندے امریکہ میں امریکی سفیر کو ہلاک کرنے اور سعودی سفارت خانے کو تباہ کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔امریکی فوجوں کے مکمل انخلا کا فیصلہ غیر متوقع تھا ۔ امریکہ عراق کے ساتھ کچھ مستقل اڈے قائم رکھنے کے امکان پر بات چیت کر رہا تھا ۔ اوباما انتظامیہ کو امید تھی کہ کچھ  امریکی فوجیوں کو عراقی سیکورٹی فورسز کو ٹریننگ دینے کے لیے وہاں رکھا جا سکے گا۔  لیکن جب عراق نے امریکی فوجیوں کو عراقی عدالتوں میں مقدمہ چلائے جانے سے استثنا دینے سے انکار کر دیا، تو مذاکرات ختم ہو گئے ۔لیکن دوسرے امریکی عہدے داروں کے بیانات کی تائید کرتے ہوئے، وزیرِ دفاع لیون پنیٹا نے انتباہ کیا کہ عراق سے فوجیں نکالنے کا مطلب یہ نہیں کہ امریکہ اس علاقے سے دستبردار ہو رہا ہے ۔ انھوں نے کہاایران پر اور ہر ایسے ملک پر جس کے کچھ عزائم ہیں، میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ  اس علاقے میں امریکہ کے چالیس ہزار فوجی موجود  ہیں، ان میں سے تئیس ہزار کویت میں اور بقیہ دوسرے ملکوں میں ہیں ۔ میں سب کو بتانا چاہتا ہوں کہ امریکہ دنیا کے اس علاقے میں اپنی موجودگی برقرار رکھے گا۔ایسی رپورٹیں شائع ہوئی ہیں کہ خلیج کے علاقے میں امریکی فوجوں کی موجودگی میں اضافے  پر غور کیا جا رہا ہے ۔ کویت میں مزید فوجیں رکھنے  اور  علاقے کے بین الاقوامی پانیوں میں مزید جنگی جہاز تعینات کرنے  کے اقدامات زیرِ غور ہیں۔   عراق میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے بارے میں ایران کے عزائم پر تشویش  ایک عرصے سے جاری ہے ۔ عراق کی مسلمان آبادی میں دو تہائی شیعہ اور ایک تہائی سنی ہیں۔صدام حسین کے دور میں ، عراق میں سیکولر آمریت قائم تھی ۔ ایران میں شیعہ مسلمانوں کی بھاری اکثریت ہے اور اس پر اسلامی علما کی حکومت قائم ہے ۔ صدام حسین کے زمانے میں،  عراق کے بہت سے شیعہ لیڈروں نے ایران میں پناہ  لی تھی۔لیکن شام میں امریکہ کے سابق سفیرتھیوڈور کاٹ آف کہتے ہیں کہ  ہم مذہب ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ  دونوں ملک اچھے ہمسایے  بن سکتے ہیں۔عراقیوں کی بھاری اکثریت عرب ہے جب کہ ایرانی مختلف نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ 1980 کی دہائی میں  یہ دونوں ملک  ایک بہت طویل اور انتہائی خونریز جنگ لڑ چکے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اس جنگ کے زخم اب تک بھرے نہیں ہیں۔  اور اگر کچھ عراقی شیعوں کا مذہب وہی ہے جو ایرانیوں کا ہے، تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کے آیت اللہ بھی مشترک ہیں۔2003 میں امریکہ کے حملے کے دوران، امریکی عہدے داروں نے  الزام لگایا کہ ایران بعض مسلح شیعہ گروہوں کی پشت پناہی کر رہا ہے ۔  ایسی اطلاعات بھی ملی ہیں کہ صدام حسین کے زوال کے بعد،  ایران نے عراق میں اپنا سیاسی اور اقتصادی اثر و رسوخ  بڑھانے کی کوشش کی  تھی ۔تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ایران کے علاقائی عزائم کے بارے میں سب  سے زیادہ تشویش سعودی عرب کو ہے  جہاں موروثی بادشاہت قائم ہے اور آبادی میں غالب اکثریت سنیوں کی ہے ۔مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے تجزیہ کار ایلکس واٹانکا کہتے ہیںسعودی عرب نے ایران کے خلاف جنگ میں صدام حسین کی مدد کی تھی، اور  یو ں تہران اور ریاض کے درمیان اختلافات  کی ابتدا ہوئی تھی ۔  افغانستان میں  ایران اور سعودی عرب کے درمیان  رقابت کا سلسلہ 1990  کی دہائی سے شروع ہوا۔ آپ اس کا مشاہدہ لبنان میں بھی کر سکتے ہیں، جہاں مختلف فلسطینی دھڑوں  کی حمایت جاری ہے  جو ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔ عراق میں بھی حالات ایسے ہی  ہو جائیں گے ۔واٹانکا مزید کہتے ہیں کہ عراق کی شیعہ آبادی بقیہ عرب دنیا سے الگ تھلگ ہو کر رہ گئی ہے  کیوں کہ بیشتر عرب سنی ہیں۔ہوا یہ ہے کہ عراق کے شیعہ ایران کی گود میں جا بیٹھے ہیں کیوں کہ انہیں عرب سمجھے جانے کے بجائے، شیعہ سمجھا جاتا ہے۔ سعودی عرب  نے فرقہ پرستی کے اس کارڈ کو  کھیلنے کا کوئی موقع ہاتھ سینہیں جانے دیا ہے ۔لیکن تجزیہ کار  سوچتے ہیں کہ ایران کس حد تک عراق کو اپنی توجہ دے سکتا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ایران کو بہت سے داخلی مسائل درپیش ہیں ۔ مثلا اس کے نیوکلیر پروگرام کی وجہ سے اس پر بین الاقوامی پابندیاں عائد ہیں، اور حکمراں طبقے میں سیاسی تقسیم روز بروز بڑھتی جا رہی ہے ۔ حکمراں طبقے کے لوگوں کے درمیان، خاص طور سے  صدر محمود احمدی نژاد اور رہبرِ اعلی  علی خامنہ ای  کے درمیان اختلافات سنگین  شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں۔