خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں

koi kinara nahi

koi kinara nahi

خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں
تو آبِ جو اسے سمجھا اگر تو چارہ نہیں

طلسمِ گنبدِ گردوں کو توڑ سکتے ہیں
زُجاج کی یہ عمارت ہے سنگِ خارہ نہیں

خود میں ڈوبتے ہیں پھر ابھر بھی آتے ہیں
مگر یہ حوصلئہ مردِ، ہیچ کارہ نہیں

ترے مقام کو انجم شناس کیا جانے
کہ خاکِ زندہ ہے تو تابع ستارہ نہیں

یہیں بہشت بھی ہے، حور جبرائیل بھی ہے
تری نگاہ میں ابھی شوخئی نظارہ نہیں

مرے جنوں نے زمانے کو خوب پہچانا
وہ پیرہن مجھے بخشا کہب پارہ پارہ نہیں

غضب ہے عین کرم میں بخیل ہے فطرت
کہ لعلِ ناب میں آتش تو ہے شرارہ نہیں

علامہ محمد اقبال