خود کلامی

Pakistan

Pakistan

سنو یہ کام مت کرو یہ غلط ھے کیوں اس کا حق مار رہے ہو ۔ضمیر نے نفس کو ٹوکا۔

دیکھو اس نوکری پہ اس کا حق ہے اس کی ڈگریاں دیکھو فرسٹ کلاس فرسٹ غریب ھے تو کیا ہوا ؟اونہہ خاموش ہو جائو اس پوسٹ کے لیئے بہت بڑی سفارش ہے یہ دیکھو اور یہ سیٹ تو وزیر کے بھتیجے کو ہی ملنی ہے نفس نے مسکراتے ہوئے ٹیبل کے نیچے پڑے بریف کیس پہ ہاتھ پھیرا۔اس فائل پے سائن کر دو بیچارے بڑے میاں بہت پریشان ہیں دو ماہ سے اپنی پینشن کے لیئے چکر کاٹ رہے ہیں ان کی خستہ حالی پہ ترس کھائو ۔ضمیر نے خوشامندانہ لہجہ اختیار کیا ۔واہ ایسے کیسے سائن کر دوں بڑے میاں کچھ دیں تب ناں سائن میں بھلا کیا دیر لگتی ہے ۔نفس کی حریصانہ فطرت اور مکارانہ سوچ اس کی آنکھوں میں لہرائی۔

سنو پرے کرو یہ پسٹل اس نوجوان کا کیا قصور ہے کیوں مارنے پہ تلے ہو اسے وہ بیچارہ تو سارا دن مزدوری کر کے اپنی بیمار ماں کے لیئے دوا لینے آیا ہے ۔صبح سے اس کی ماں بخار میں جل رہی ہے ۔اس سے کیا دشمنی ہے تمھاری ؟مت مارو اسے اس بیچارے کا تمھاری سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ۔ضمیر نے روتے ہوئے فریاد کی ۔خاموش اپنی حد میں رہو مجھے اس کی لاش پہ ہی تو اپنی سیاست چمکانی ہے خوف و ہراس پھیلانا ہے نفس نے ضمیر کو جھڑکا ۔ اور بارود کے دھو ئیں میں ضمیر نے دیکھا اس نوجوان کا تڑپتا ھوا زندگی سے بھرپور جسم سرد وجود میں بدل گیا۔اس کی آ نکھوں میں ایک ہی سوال تھا کہ میرا کیا قصور تھا ؟؟ ضمیرنے دونوں ہاتھوں سے اپنے چکراتے سر کو تھاما اور سسکیاں لیتے ہوئے زمین پہ بیٹھتا چلا گیا۔

میں کوئی منجھی ہوئی رائٹر نہیں ہوں ایک عام سی خاتون ہوں مگر میرا دل اور اس کی دھڑکنیں اپنے وطن کی زندگی اور خوشی سے ھم آہنگ ھیں۔وطن کی اور بیکس لوگوں کی بیکسی دیکھ کے مرا دل دکھتا ہے اور خون کے آنسو روتا ہے کہ کیا ہو گیا میرے وطن کواس کے لوگوں کو یہ اس طرح کے کیوں ہو گئے ہیں ۔ کیا ہوس اقتدار اور نفسانفسی انسان کو حیوانیت میں تبدیل کر دیتی ہے ؟ کیا خوف خدا کچھ نہں ؟ کیوں ہم حیوانوں سے بدتر ہوگئے ہیں ؟قائد کی جدوجہد پاکستان کا ایک وجود جس کے لئے انھوں نے اپنی نیند آرام سب کچھ بھلا دیا اور ہم نے اس کے ساتھ کیا کیا؟اس چمن کو سنوارنے کے بجائے اسے اجاڑ دیا ڈائن بھی سات گھر چھوڑ دیتی ہے مگر ہم تو اپنا ہی گھر ویران کرنے پہ تلے بیٹھے ہیں۔

اقبال کے خواب کی ایسی تعبیر کیوں ؟قصور کس کا ؟ کیا کمی اور کمزوری ہے ہماری ۔ہم نے اپنے ہاتھ خود کاٹ کے دوسروں کے حوالے کر دئیے ہیں ہم نے اپنی نوجوان نسل کو خود کھو دیا کیوں کے ہم زندگی اور ترقی کی دوڑ میں جان بوجھ کے پیچھے اور محتاج قوم ہیں ۔ہمارے ملک میںہمارے اپنے ڈاکٹر ۔انجینئر ۔اور افرادی قوت کے لیئے نہ جگہ ہے نہ روزگار لہذا وہ باہر کا رخ کرتے ہیں ۔ پودا ہم اگاتے ہیں اور پھل دوسرے کھاتے ہیں یہ ہماری ناعاقبت اندیشی نہیں تو اور کیا ہے۔کہاں سے لائیں وہ محمد بن قاسم جو ایک دکھی بہن کی پکار پہ لبیک کہتا ہوا آکھڑا ہوا تھا ۔کہاں ہے عدل فاروق ؟ کہاں وہ نائبین جو کہتے تھے کہ اگر ہماری ریاست میں ایک جانور بھی بھوکا رھے گا تو روز قیامت ہم سے بازپرس ہوگی۔لہذا ہم اپنے گریبان میں جھانکیں تو عقدہ کھلتا ہے کہ ہم اس کے اہل ھی نہیں ہمارا تو وہ حال ہے۔

ہر طرف لوٹ مار ،چور بازاری ،کرپشن ،تباھی ،بربادی بس یہ ھے مرا پاکستان میرا پیارا پاکستان ۔ہم کتنی عجیب قوم ہیں ہمیشہ دوسروں سے امیدیں وابستہ کرتے ہیں اور دوسرے ہمیں وعدوں پہ ٹرخاتے اور بہلاتے ہیں ۔میری سمجھ میں آج تک یہ بات نہیں آئیکہ ھمارے لیڈروں کا ھر وعدہ اقتدار میں آنے سے کیوں جڑا ہوتا ہے جبکہ وہ پہلے سے صاحب حیثیت ہوتے ہیں ۔ جتنی رقم وہ جلسوں اور خود نمائی میں لگاتے ہیں اس سے کتنے بھوکوں کا پیٹ بھر سکتا ہے۔

عمران خان اج کل سیاست کے گھوڑے کے شہ سوار ہیں اور یوتھ کا نعرہ لگاتے نظر آتے ہیں ۔ میں ان سے پوچھتی ہوں آپ کی ماشااللہ بہت واقفیت ہے اور صاحب حیثیت ہیں کیا آپ نے کسی مستحق اور قابل غریب نوجوان کی مدد کی اسے نوکری دلوائی ؟ یا کسی غریب کے گھر کا خرچ اتھایا؟اقتدار کے وعدے پر وفا کرنا تو ایک فریب ھے کون جیتا ھے تیری زلف کے سر ھونے تک۔ اور یہ بچاری غریب عوام بہت دکھی اورتجربات کی ماری ھے اس پہ اتنے تجربے ہو چکے ہیں کہ اس کے جسم میں مذید زہر اتارنے کی گنجائش نہیں ۔ اب اسے تریاق چاھئے آرام چاہئے۔

تحریر : ڈاکٹر فوزیہ عفت
dr.fouzia iffat
fouziaiffat@yahoo.com