ریاست نہیں جان بچاؤ

Aqeel Khan

Aqeel Khan

طاہر القادری پہلی بارمیدان سیاست میں نہیں آرہے ہیں اس سے پہلے بھی یہ2001کے الیکشن میں اسمبلی کا مزا چکھ چکے ہیں ۔اس وقت ان کو پرویز مشرف کے ساتھ سیاست کرنے کا مزا نہیں آیا اس لیے اب وہ دوبارہ ایک انقلابی نعرہ”سیاست نہیں ریاست بچاؤ”کے ذریعے میدان میں آرہے ہیں مولانا طاہر القادری کا ماضی اتناشاندار نہیں ہے۔ ان کی متنازعہ ویڈیو اور بیانات دنیا کے سامنے ہیں۔ عوام ان کے سارے کردار سے واقف ہے اور جونہیں تو ان کو اب معلوم  ہو جائے گا۔ وہ عام مولویوں کی طرح ایک معمولی سی مسجد کے امام تھے جو میاں شریف( مرحوم)کی بدولت اتفاق مسجد تک پہنچے۔ اتفاق مسجد میں انہوں نے اپنی جادوئی شخصیت اور جذباتی خطبات کے ذریعے میاں برادران کو اپنا گرویدہ کر لیا اور ایک عرصہ میاں برادران کے ساتھ گزارا۔

یہاں تک کے حج اور عمرے بھی میاں برادران کے ساتھ ان کے خرچے پر کیے ۔ پھر وہی جو آج کل اس دنیا میں ہورہا ہے کہ کسی کے احسان کو باآسانی بھلا دینا ۔ اسی طرح شیخ الاسلام نے میاں برادران سے احسان فراموشی کرتے ہوئے انکے ہی خلاف ایک محاذ بنا لیا۔ قوم کو بہت سے خواب سنانے کے بعد انہوں نے پاکستان اوربیرون ممالک میں ایک بڑا حلقہ احباب بنا لیا ۔اس کے بعد انہوں نے کارکنوں کے اجتماع میں سیاست سے توبہ کی اورہمیشہ کے لیے سیاست چھوڑ دی۔ یہاں تک کہ قومی اسمبلی کی نشست سے بھی استفعیٰ دیدیا۔

اپنے متنازعہ بیانات کی وجہ سے ملک چھوڑنا پڑا اور وہ گذشتہ کئی سالوں سے پاکستان سے باہر زندگی گزار رہے ہیں۔ اب نہ جانے کس کے اشارے پراچانک انہوں نے پاکستان آنے کا اعلان کردیا ۔پاکستان آنے سے پہلے ہی انہوں نے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں اپنی تشہیری مہم پر اب تک کروڑوں نہیں اربوں روپے خرچ کر دئیے ہیں۔لاہور کی کوئی شاہراہ نہیں، کوئی الیکٹرک پول نہیں جس پر مولانا کی تصاویر کے بورڈ نہ لگے ہیں۔ اتنا تو شاید صدر پاکستان یا کسی غیر ملکی خصوصی مہمان کی آمد پر لاہور کو نہیں سجایا جاتا ہوگا۔مولانا کے نعرے سیاست نہیں ریاست بچاؤ پر عمل کرنے سے پہلے عوام کے ذہنوں میں موجود خدشات کا جواب دینا مولانا کا فرض بنتا ہے۔

جب مولانا سیاست چھوڑ چکے ہیں توپھر سیاست کے بغیر وہ کونسا الہ دین کا چراغ ہے جس کے ذریعے وہ ریاست کو بچانا چاہتے ہیں؟ پاکستان میں قانون سازی سے لیکر ملکی دفاع تک کے فیصلے تو پارلیمنٹ میں ہوتے ہیں اور اس میں عام بندوں کو شامل نہیں کیا جاتا ہے ۔اس میں شامل ہونے کے لیے پارلیمنٹ کا ممبر ہونا ضروری ہے جس کے لیے الیکشن لڑنا فرض ہے۔اب عوام پوچھتی ہے کہ مولانا کیا دم درود سے ریاست کی حفاظت کریں گے۔

شیخ الاسلام کو کسی نے ملک بدر تو نہیں کیا پھر یہ کیوں اتنا عرصہ سے پاکستان نہیں آئے۔سنا ہے کہ انہوں نے دہشت گردوں کے خلاف کوئی فتویٰ دیا جس پر ان کوجان سے مارنے کی دھمکی ملی تھی جس کے ڈر کی وجہ سے ملک سے بھاگ گئے تھے۔ہمارا ایمان ہے کہ زندگی اور موت اللہ کے اختیار میں ہے تو پھر یہ کس ڈر کی وجہ سے ملک سے دور رہے؟ اگر شیخ الاسلام کا عقیدہ اتنا کچا ہے تو پھر عوام ان پر کیوں بھروسہ کریں گے؟ ان کوکیا خواب نظر آیا کہ خدانخواستہ پاکستان پر کوئی قابض ہورہا ہے جو یہ ایک دم کینیڈا سے پاکستان بھاگتے ہوئے پہنچے یا پھر ادھر بھی کسی نے دھمکی دے ڈالی ہے۔

مولانا طاہر القادری صاحب یہ بھی بتادیں کہ اپنے اس جلسے کی تشہیر پر جواتنی دولت خرچ کی وہ کونسے کاروبار سے جمع کی ہوئی ہے۔ لوگوں کی جانب سے زکوٰة و عشر اور قربانی کی کھالوں کے عطیے ادارہ منہاج القرآن کو دئیے جاتے ہیں اگر یہ پیسے منہاج القرآن کے نہیں تو کہاں سے آئے ہیں ؟کیا اسلام اس فضول خرچی کی اجازت دیتا ہے ؟ اتنی رقم سے نہ جانے کتنے غریب لوگوں کی مدد کی جاسکتی تھی۔

Altaf Hussain

Altaf Hussain

مولانا کی اس سیاسی تحریک کی حمایت کا واحد اعلان الطاف حسین نے کیا ہے ۔ انہوں نے تو طاہر القادری کو فون کر کے اپنی غیر مشروط حمایت کی یقین دہانی کرائی ہے ۔ یہ دونوں وہ ہیں جو پاکستانی عوام سے بہت پیار کرتے ہیں ۔ پاکستان کے لیے اپنی جان بھی قربان کرسکتے ہیں (میڈیا کی حد تک) جو لوگ اپنی جان کے خوف سے پاکستان نہیں آتے وہ پاکستانی عوام کی کیا حفاظت کریں گے ؟ جن کو اپنی جان عزیز ہوتی ہے وہ دوسروں کی جان بچاتے نہیں بلکہ ان کی جان کی قربانی دیتے ہیں۔

تحریر : عقیل خان