سوئے حرم کا ارادہ اور نئی مشکل

Hajj

Hajj

مورخہ 25اپریل 2012ء کو ہماری معزز و محترم وفاقی کابینہ کی طرف سے اس سال کیلئے حج پالیسی 2012کی منظوری دے دی گئی ہے اور یوں نئے حاجیوں کے لیئے ایک نئی مشکل نے سر اٹھا لیا ہے۔ کیونکہ حج کا کرایہ پچھلے سال کی مناسبت سے وائیٹ Catogaryکیلئے تقریباً 50000سے 100000 روپئے تک بڑھا دیئے گئے ہیں۔ یہ اخراجات ان تمام حاجیوں کو بھگتنا پڑیںگے جو رواں برس حج کا مسمّم ارادہ کئے بیٹھے ہیں۔ گذشتہ سال یہ کرایہ بشمول دیگر اخراجات ملا کر 180000روپئے تھا اور اس سال یہ کرایہ 221000کر دیا گیا ہے جو کہ ان نئے حاجیوں کو ادا کرنے ہونگے ۔ جو حج کا ارادہ کر چکے ہوں اور کرایہ بھی ایک لاکھ اسّی ہزار روپئے جمع کر چکے ہوں ، انہیں تو پریشانی لاحق ہو گئی ہے کہ بقیہ رقم کا انتظام کہاں سے کیا جائے۔ کس طرح بقیہ اخراجات کو اپنے گذشتہ رقم میں ایڈجسٹ کیا جائے ، کون سی کمیٹی ڈالی جائے جو وقتِ مقررہ پر دستیاب ہو جائے ، اور کس طرح بیت اللہ شریف کا طواف حاصل کیا جائے۔ کس طرح گنبدِ خضرا کی زیارت نصیب ہو۔

اس کیٹیگری میں عازمینِ حج خانۂ کعبہ سے تقریباً 2000میٹردور رہائش پذیر ہونگے ۔ کیونکہ یہ عام عازمینِ حج ہیں۔ اور وی۔ آئی۔ پی شخصیات کی رہائش غالباً خانۂ کعبہ سے کافی قریب رکھا گیا ہے۔اب تو اُس دربار میں جانے کیلئے بھی تین Catagoryبنا دیا گیا ہے جس کی تفصیل میں، میں جانا نہیں چاہتا مگر یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ چاہے وہ  وی آئی پی لوگ ہوں یا کوئی عام عازمینِ حج رہائش تک تو الگ الگ حصے میں رہیں گے لیکن خدائے بزرگ و برتر کے مقدس دربار میں جاکر سب ہی ایک کیٹیگری میں شامل ہو جائیں گے کیونکہ اس دربارِ عالیہ میں کوئی امیر نہیں ، اور کوئی غریب نہیں رہتا ہے ، نہ کوئی کالا اور نہ کوئی گوراہوتا ہے۔ نہ کوئی عربی اور نہ کوئی عجمی رہتا ہے۔ سفید لباس زیبِ تن کیئے ہوئے یہ تمام لوگ صرف اللہ کی رضا حاصل کرنے کی جستجو میں مگن ہونگے۔ یہ تفریق تو دنیا والے اور ان کے کرتا دھرتائوں کا بنایا ہوا ہے۔ اللہ رب العزت کے گھر میں ایسا کوئی قانون نہیں ہے ۔کیا یہ شعر ان تمام معاملوں کی کھلے عام ترجمانی نہیں کرتا۔

ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز

کچھ تحریر کرنے سے پہلے یہ آیت زیرِ بحث لانا مقصود ہے تاکہ تمام حاجیوں کو اس کے اجر کا اور اس کے ثواب کا اندازہ ہو جائے کہ حج کا ثواب کتنا زیادہ ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے حج کیا اور (دورانِ حج) نہ جماع کیا اور نہ بُری بات کہی تو وہ جب واپس آئے گا اس دن کی طرح (گناہوں سے محفوظ ) ہوگا جس دن اس کی ماں نے اس کو جنا۔

تزکیۂ نفس اور تقویٰ کی روح کے بغیر کوئی عبادت قبول نہیں ہوتی۔ آپ سفرِ حج میں ہوں گے تو آپ کو قدم قدم پر مشکلات کا سامنا ہو گا ان مشکلات پر صبر و برداشت سے قابو پانے کی کوشش کریں۔ آپ سب لوگ وہاں صرف اور صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کے مہمان بن کر جا رہے ہیں۔ آپ کی تکالیف، تھکن، کاہلی، دل و دماغ کی بے ربطی وہی دور کرنے والا ہے اور یقینا وہ دور بھی کرے گا۔ وہی ہمارے ہر مشکل کو آسان کرنے والا ہے۔ (وہی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے)۔

میرا قلم جو کچھ لکھ رہا ہے اس سے تو آپ سبھی لوگ واقف ہیں مگر یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ قلم کی جستجو کو تحریر کی شکل دے دی جائے ۔ جب گھر سے نکلیں تو اہرام باندھ کر نکلیں، سفر میں دورانِ پرواز بھی تلبیہ کا ورد جاری رکھیں۔جب آپ نے احرام باندھ لیا تو آپ پر وہ ساری پابندیاں عائد ہو جاتی ہیں جس میں فسق و فجور ، غصہ سے اجتناب، زیب و آرائیش، سنگھار، خوشبوکا استعمال، گالم گلوچ سے کلّی پرہیز، حدودِ حرم میں بد گوئی، بد کلامی جیسی حرکات سے مکمل پرہیز لازمی ہے۔جب آپ کا جہاز جدّہ ائیرپورٹ پر لینڈ کرجائے تو قطار بنا کر کھڑے ہوں۔ وہاں پہنچنے کے بعد اگر آپ بے صبری اور بد نظمی کا مظاہرہ کریں گے تو سعودی حکام پاکستانی حاجیوں کے ساتھ خصوصاً بے اعتنائی برتنے پر مجبور ہوتے ہیںاوروہ وقت بھی زیادہ برباد کرتے ہیں۔ اس لیئے ہر کام کو اللہ رب العزت کی رضا پر چھوڑ دیں تاکہ آپ کا کام اور تمام مراحل آسان ہو جائے۔ کیونکہ قناعت و توکّل آپ کے احرام کی آزمائیش بھی ہے۔

سفرِ حج دینی و دنیاوی اعتبار سے ایک بہترین سفر میں شامل ہے۔ اس میں اللہ کی خوشنودی کے ساتھ ساتھ بے تحاشہ منافع بھی شامل ہے۔یوں تو حج کے فضائل اتنے زیادہ ہیں کہ سب کی تفصیل بیان ہی نہیں کیئے جا سکتے ۔کیونکہ یہ سفر ہی صرف اللہ رب العزت کیلئے ہے تبھی تو اس میں فضائل اور منافع بھی بے حد زیادہ ہیں۔حج کی بہت سی حکمتیں اور مصلحتیں ہیں۔ بیت اللہ کی تعظیم ہے جو شعائر اللہ رب العزت سے ہے۔ اس کی تعظیم سے خدائے بزرگ و برتر خوش ہوتا ہے۔

حجازِ مقدس وہ سر زمین جس کی مٹی پر پہنچنا ہر مسلم کی خواہش ہوتی ہے ۔ خوش قسمت لوگ جو وہاں تک پہنچ جائیں تو انہیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیئے کہ مسجدِ حرام میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے اس لئے آپ سب سے التماس ہے کہ بلا کسی بڑی مجبوری و معذوری کے اپنی لاکھوں کی نمازیں ضائع نہ کریں ، محض تھکن کا بہانہ تو بالکل ہی نہ کریں کیونکہ چالیس روزہ تھکن کے بعد آپ کے لیئے آرام ہی آرام ہے۔ذرا ذرا سی بات پر ووایلا مچانا، شکوے کرنا،غم و غصہ کا اظہار کرنا انتہائی درجے کی کم ہمتی ہے۔ اس سے پرہیز لازمی کریں۔ بلا وجہ بازاروں میں گھوم پھر کر یا خریداری کر کے اپنے آپ کو تھکن سے بچائیں تاکہ حج کے تمام ارکان اپنی پوری توانائی کے ساتھ ادا کر سکیں۔

یہاں یہ بات بھی درج کرتا چلوں کہ جب ہر مسلمان اس فریضے کی ادائیگی کا ارادہ رکھتا ہے تو ہمارے خلفیۂ وقت یا یوں کہہ لیں کہ ہمارے حکمرانوں کو کم از کم کچھ نہیں تو اس کے کرایے میںکمی کرنے کا سوچنا چاہیئے نہ کہ بڑھانے پر توجہ مرکوز رکھنا چاہیئے۔ جب ہرمسئلے میں چاہے وہ بجلی ہو، پانی ہو، مہنگائی ہو ، ہماری حکومت سبسٹڈی دیتی ہے تو کیوں نہ حج جیسے مقدس سفر میں بھی عازمینِ حج کو سبسٹڈی دیں تاکہ تمام لوگ ہی اپنی اس خواہش کو عملی جامہ پہنا سکیں۔

امیدِ قوی ہے کہ اس مسئلے پر بھی سنجیدگی سے غور کیا جائے گا اور آئیندہ کی حکمتِ عملی میں اس تجویز کو سرِ فہرست رکھ کر سوچا جائے گا۔ کیونکہ یہ سبسٹڈی نہ صرف اللہ رب العزت کی رضا کیلئے ہوگی بلکہ عازمینِ حج کیلئے بھی سُود مند رہے گا۔

تحریر : محمد جاوید اقبال صدیقی