شمع و پروانہ

shama aur parwana

shama aur parwana

پروانہ تجھ سے کرتا ہے اے شمع پیار کیوں
یہ جان بے قرار ہے تجھ پر نثار کیوں

سیماب وار رکھتی ہے تیری ادا اسے
آداب عشق تو نے سکھائے ہیں کیا اسے؟

کرتا ہے یہ طواف تری جلوہ گاہ کا
پھونکا ہوا ہے کیا تری برق نگاہ کا؟

آزار موت میں اسے آرام جاں ہے کیا؟
شعلے میں تیرے زندگی جاوداں ہے کیا؟

غم خانہ جہاں میں جو تیری ضیا نہ ہو
اس تفتہ دل کا نخل تمنا ہرا نہ ہو

گرنا ترے حضور میں اس کی نماز ہے
ننھے سے دل میں لذت سوز و گداز ہے

کچھ اس میں جوش عاشق حسن قدیم ہے
چھوٹا سا طور تو یہ ذرا سا کلیم ہے

پروانہ ، اور ذوق تماشائے روشنی
کیڑا ذرا سا ، اور تمنائے روشنی!

علامہ محمد اقبال