شعور و فکر میں جب روشنی نظر آئی

Ishq

Ishq

شعور و فکر میں جب روشنی نظر آئی
نگاہ عشق میں دنیا مجھے نظر آئی

یہ میرے عشق کے جذبات کا نتیجہ ہے
کہا تھا اس نے نہ آﺅ گی میں مگر آئی

کسی بھی شکوہ شکایت کو اب جواز نہیں
جہاں جہاں پہ بلایا ادھر ادھر آئی

مرے وجود میں سانسوں کا رقص جاری ہوا
صبا کے دھوپ میں جب بھی وہ بام پر آئی

جمن سے آئے تھے جگنو بھی تتلیاں ملنے
جمال عشق کی دلہن جو میرے گھر آئی

شریک ِ رسمِ حنا میں تھی سامنے میر ے
مری نظر بھی وہاں جا کے سیر کر آئی

وہ میرے دید کو ترسی ہے آ رہی ہے گل
ہوا کے دوش پہ خوش بو میں یہ خبر آئی

گل بخشالوی ،
کھاریاں ،، پاکستان