عظیم چین قابل تقلید

China

China

چین معیشت سے لیکر دفاع تک صنعت  سے لیکر کمپیوٹر ٹیکنالوجی تک خلابازی سے لیکر سماجی سائنسی زرعی شعبوں تک انقلاب افریں ترقی کی  بدولت روئے ارض کے ہر کوچے کونے پر چھا چکا ہے اور وہ دن دو نہیں جب وائٹ ہاوس قصہ پارینہ بنے گا اور دنیا چین کی مٹھی میں ہوگی۔ دور حاظرہ کی تمام امیر ترین اور جدید ٹیکنالوجی کی حامل مغربی ریاستوں کے تھنک ٹینکس چین کی برق رفتار ترقی پر انگشت بدنداں ہیں۔

وہ ایک دوسرے سے اس سربستہ راز کی حقیقت جاننے کے لئے مضطرب ہیں کیونکہ مغرب میں جو کارہائے نمایاں صدیوں کی سرتوڑ ریسرچ اور کاوشوںکے بعد ممکن ہوئے وہ  چائنا نے قلیل عرصہ میں کس طرح حاصل کرلئے۔چین کی سالانہ اقتصادی بڑھوتری  اور شرح نمو کا گراف ناقابل یقین  بلندیوں کو چھو رہا ہے  دنیا کی دس ہزار سالہ ہسٹری میں اسکی نظیر نہیں ملتی۔ جبران نے درست ہی کہا تھا۔

ریاستیں بنتی ٹوٹتی اور بکھرتی رہتی ہیں اگر قیادت دیانت دار ہو تو اسمان کی بلندیوں سے اوندھے منہ گرنے والی قومیں دوبارہ عروج کے اوج ثریا کو پانے میں دیر نہیں لگاتیں۔ چائنا کی سیاسی اور جنگی ہسٹری پر غور خوض کرنے سے سربستہ راز طشت ازبام ہونگے۔دوسری جنگ عظیم میں چین نے جاپان کے خلاف اتحادیوں کا ساتھ دیا۔ چین کے ارمی چیف چیاناگ کائی شیک نے اپنی دو افواج برطانوی جنرل سٹکملی کی سپہ سالاری میں دیکر اتحادی فورسز کا حصہ بن گیا۔ فیلڈ مارشل ولیم  برما میںاتحادی افواج قاہرہ کا کمانڈر تھا۔

جنگ کے بعد فیلڈ مارشل ولیم نے اپنی خود نوشت بائیوگرافی میں چینی افواج کی غیر تسلی بخش کارکردگی پر کاٹ دار تنقیدی جملوں کا حملہ کیا۔ولیم لکھتے ہیں کہ چینی فوجی افیسرز پیش وارانہ مہارت سے نابلد تھے۔ جنگ کے اختتام پر جنرل ماوزے کی کیمونسٹ ننگ افواج نے قوم پرست چینی جرنیل چیاناگ کائی شیک کے لشکر کو پسپا کرکے تائیوان کے جزیروں میں دھکیل دیا۔

تائیوان خود مختیار ازاد ملک ہے جو اسرائیل کی طرح امریکن اڈٹ پوسٹ ہے۔ ماو کو سویت یونین کی حمایت حاصل تھی۔ سوویت یونین مشرق بعید کو اپنے سایہ عاطفت میں لینے کا امیدوار تھا اسی لئے ماسکو نے ماو کی خوب او بھگت کی۔، جنگ کے اختتام پر اتحادیوں نے تائیوان کوریا فلپائن اور تھائی لینڈ کو اپنی بیعت پر راضی کرلیا اسی طرح سوویت یونین نے چین ویت نام اور شمالی کوریا کو اپنے بلاک میں شامل کیا۔ ماسکو چین رومانس پچھلی صدی کے دوسرے عشرے سے اج تک جاری ہے۔
دونوں اشتراکی ملک چائنا اور ماسکو نے سرمایاداریت پر مبنی وحشیانہ نظام کے خلاف سربکف ہوئے اور دونوں اج بھی اسکے خلاف صف ارا ہیں۔ روس چین تعلقات میں کئی مرتبہ سرد مہری اور رنجش و اختلافات پیدا ہوئے۔

تاہم طرفین کی صاحب بصیرت سیاسی و حکومتی قیادت نے دونوں کو پھر ایک  ایشو پر متفق کرلیا۔ 1934سے1948 تک کے پندرہ سالہ  دور تک ماو چواین لائی نے سوویت یونین کو اپنی انکھ کا تارا اور مربی بنائے رکھا مگر انہوں نے ہزاروں چینی انجنیرز سائنس دانوں کو ماسکو روانہ کیا جہاں تعلیم مکمل کرنے  والے ہنر مندوں نے  واپس پلٹ کرمادر وطن کی انقلابی ترقی  کی سرتوڑ کوششوں میں مقدور بھر حصہ ڈالا۔  یوں اس عرصہ میں  مختلف ہائے نمایاں شعبوں میںخوشحالی اور کامیابیوں کے سفر کا اغاز ہوا۔1949 میں کیمونسٹ چین کی نئی حکومت پیپلز ریپبلک اف چائنہ قائم ہوئی تو اغراض و مقاصد میں تین اہداف شامل تھے۔

Chani Hunarmand

Chani Hunarmand

زیادہ سے زیادہ چینی ہنرمندوں کاریگروں اور انجینرز کو امریکہ فرانس جرمنی اور برطانیہ بھجوانا اور پھر چین میں کام کرنے کا پابند بنانا۔2 ۔صنعتی اور اقتصادی ترقی کی خاطر دن رات ایک کرنا 3 جنگ و جدال سے دور رہنا تاانکہ اسکی ضروت ناگزیر نہیں بن پاتی۔تاریخ شائد ہے کہ چین نے بھارت کے خلاف ایک ماہ دورانئیے کی جنگ کی مگر جونہی ٹیکنیکل اہداف حاصل ہوئے چینی فورسز نے میدان جنگ چھوڑ دیا۔ ماو کے بعد انے والی نئی چینی سرکار نے سپرٹ کا تسلسل برقرار رکھا۔

1949 تک2013 تک کے چونسٹھ سالہ پریڈ میں ہونے والی لاثانی کامیابی کا راز بے لوث اور بے غرض قیادت کی دیانت داری میں مضمر ہے۔ اسلامی تاریخ میں خلافت راشدہ خلافت امیہ خلافت عثمانیہ اور بنو عباسیہ کے سنہری ادوار میں ایک سے بڑھ کر ایک یگانہ روز گار  مسلم بادشاہ منظر عام پر اتے رہے اور انہوں نے اسلام کو عالمگیر شہرت عطا کی۔ خاندان مغلیہ کی تاریخ دہرائی جائے تو ایک کے بعد کئی نامور حکمران پیدا ہوئے۔ کیا یہ قدرت کا شاخسانہ تھا یا پھر ازراتفاق کی باپ کی عادات بیٹوں میں منتقل ہوتی رہی۔

بابر ہمایوں اکبر شہنشاہ جہانگیر شاہ جہان اور اورنگ زیب1526 تا1707 تک برصغیر پر بادشاہی کرتے رہے اورنگزیب کے بعد شہزادے نااہل نکلے۔ عظیم مغل بادشاہوں نے دو سو سالہ مشقت شاقہ اور عزم و جنون سے قصر شاہی قائم کیا تھا وہ اتنا مضبوط اور پائیدار تھا کہ  وہ1717  تا 1857 تک قائم رہا۔بدقسمتی سے150 برسوں میں کوئی اور قداور بادشاہ نہیں ایا جو اسلاف کی روایات کا امین بننے کی صلاحیتوں سے مالا مال ہو۔پہلی جنگ عظیم میں ترکوں نے مصطفی کمال شاہ کی سرپرستی میں گیلی پولی میں انگریزوں کو شکست دی تو کسی شاعر نے کہا ترکوں کا پرچم ایک بار پھر بلند ہوگیا مگر ایک دکھ تو یہ بھی ہے کہ اج تک مصطفی کمال پاشا کا متبادل نہ مل سکا۔مغلیہ دور کا تذکرہ شیرشاہ سوری کے بغیر نامکمل ہوگا۔

شیرشاہ سوری نے1540تا1945 تک پانچ سال حکمرانی کی۔پاکستان میں رائج سکہ الوقت پنچائتی اور نمبرادری کا سسٹم شیرہ شاہ سوری کا گفٹ ہے۔شیرہ شاہ سوری کا جانشین کوئی نہ بن سکا۔چین کی طوفانی ترقی کا راز سیاسی لیڈرشپ کی قائدانہ صلاحیتوں کے تسلسل میں مضمر ہے۔چین میں میڈیا پر پابندیاں عائد ہیں چین میں جمہوری نظام نہیں ہے۔ امریکہ ہمیشہ چین کو ڈکٹیٹرشپ کے کوسنے دیتا رہتا ہے۔ شکر ہے چین میں جمہوریت کا احیا نہ ہوا۔

ڈکٹیٹرشپ نے ہی چینی قوم  کو سپرپاور بننے کا ملکہ عطا کیا ہے۔مغرب میں کئی ممالک ایسے ہیں  جہاں ایسے صدور اور وزرائے اعظم منتخب ہوئے جو اپنی قوم کے بوجھ کو اٹھانے کی اہلیت سے مالا مال  تھے ۔انڈیا میں جواہر لال نہرو اندراگاندھی راجیوگاندھی اور سونیا گاندھی کا تعلق ایک ہی خاندان سے ہے مگر وہاں اتنی ترقی نہیں ہوئی جو چین کا تقابلی مقابلہ کرسکے۔امریکہ اور مغرب بھارت کو چین کا ہم پلہ قرار دیتے ہیں جو لغوبیانی کے سوا کچھ نہیں۔

Tony Blair

Tony Blair

ٹونی بلیر جب ریٹائر ہوتے ہیں تو کالجوںمیں نوکریاں کرتے ہیںَ وہ ہماری طرح اپنے بچوں کو  سرکاری تخت کا وارث نہیں سمجھتے اور نہ ہی انکی سیاسی تربیت کرتے ہیں۔ وراثتی سیاست انسانی ترقی کو دیمک کی طرح  چاٹ لیتی ہے۔سوال یہ نہیں ہے کہ طرز حکومت صدارتی ہو یا پارلیمانی جمہوری ہو یا امرانہ یہ سب نام ہیں اصل چیز ان ناموں کی شخصی اور انفرادی صفات ہیں جو باپ سے بیٹے کو منتقل ہوں تو ملک کی تقدیر سنور جاتی ہے لیکن اگر کسی ہمایوں کا بیٹا اکبر نہ بن سکے تو پھر اسکا حشر وہی ہوتا ہے جو شیرشاہ سوری کے فرزند جلال خان سوری کا ہوا تھا۔ جلال سوری کی بات چلی ہے تو یاد رہے کہ وہ1545 سے1546 میں باپ کی رحلت کے بعد تخت نشین ہوا مگر  اسکا تخت صرف ایک سال بعد زمین بوس ہوگیا کیونکہ وہ اپنے والد شیرشاہ سوری کے اوصاف سے عاری تھا۔

چین اور پاکستان دیرینہ دوست ہیں۔ پاکستانی حکمرانوں اور پالیسی سازوں کو چاہیے کہ وہ کم ازکم چین کی عقل دنگ کردینے والی اقتصادی معاشی دفاعی اور سائنسی ترقی کے بنیادی اسباب  پر ریسرچ کریں اور پھر اسے پاکستان میں قابل تقلید بنایا جائے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ ٹیگور کے اس جملے کی روشنی میں قوم کو اصل راہ کی سوجھ بوجھ سے اگاہ کرے۔ ٹیگور نے کہا تھا روشنی جہاں سے بھی ملے حاصل کرلو یہ مت دیکھو کہ مشعل بردار کون ہے۔

تحریر :  روف  عامر