غیرقانونی تارکین وطن یونانی انتخابات کا سرگرم موضوع

 SKENDAR RIAZ

SKENDAR RIAZ

یونان جوکہ گزشتہ کئی سالوں سے معاشی واقتصادی بحران کا سامنا کیے ہوئے ہے جس کے باعث نہ صرف دوحکومتیں ختم ہوئی بلکہ یونان کومعاشی میدان میں استحکام کے لیے پے درپے ملنے والے قرضے اورامدادی پیکج ابھی تک یونان کی معیثت کوسہارا دینے میں ناکام نظر آرہے ہیں یونانی شہری اس معاشی واقتصادی بحران کوحکومتوں کی نالائقی،حکمرانوںکی عیاشیوں،ناقص پالیسیوں اورحکمت عملیوں،عالمی اداروں سے قرضوں کے حصول،یورپی یونین کی جائز وناجائز شرائط پرسرتسلیم خم کرنے کے ساتھ ساتھ یونان جیسے چھوٹے ملک میں گنجائش سے انتہائی زیادہ موجود تارکین وطن کوبھی یونانی معیثت کی بدحالی اوربے روزگاری کا سبب قراردے رہے ہیں۔

معاشی واقتصادی بحران کے آغازسے یونان کے عمومی حالات کاجائزہ لینے پرپتہ چلے گاکہ یونان کے معاشی بحران میں بھی یونان میں مقیم قانونی حثیت کے تارکین وطن نے ناصرف یونان کوسہارا دیابلکہ تجارتی ودیگر شعبہ جات میں باوجود اس کے سخت معاشی تنگدستی اوربھاری ٹیکسوں کے باوجود اپنے کاروبار چلانے کی کوششوں میںمصروف عمل ہیں جس سے کافی حد تک ان میں بے روزگاری کی شرح کم ہے جس کی وجہ کم معاوضے پربھی کام کرنا،سخت محنت طلب کام کرنے سے گریز نہ کرنا،زرعی شعبہ جات میں انتہائی کم معاوضے پرمقررہ اوقات سے زائد کام کرنا،زرعی مالکان کی جانب سے غیرمعیاری سہولیات اورمیڈیکل کی عدم سہولیات اورناقص رہائش گاہوں میں مقیم ہوکر بھی یونانی زرعی پیداوار میں اپنا حصہ دینا یہاں یہ نکتہ قابل غور ہے اگر یونان کے زرعی شعبہ میں تارکین وطن محنت کش کام نہ کریں تو یونان کازرعی شعبہ انتہائی مشکلات کاشکار ہوجائے ۔

تجارتی حوالے سے پاکستانی برادری یادیگر تارکین وطن چھوٹے کاروبار کرنے میں مصروف ہیں جن میں کریانہ مرچنٹ،ٹیلی فون سنٹرز،انٹرنیٹ سپاٹس،موبائل شاپس اوراسی نوعیت کے دیگر کاروبار شامل ہیں جس کے باعث یونان کوٹیکس کی مد میں کافی مدد ملتی ہے ۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یونان جیسے ملک جس کی اپنی آبادی قانونی حثیت کے تارکین وطن کوشامل کرکے دیکھاجائے توڈیڑھ کروڑ کے نزدیک بنتی ہے میں اس وقت قانونی تارکین وطن کے علاوہ غیر قانونی تارکین وطن جن کاتعلق مختلف ممالک سے ہے کی تعداد بے انتہازیادہ ہے جس پرقابوپانے کے لیے حکومتی وسائل ناکافی ہیں جس کے باعث یونان کوبے شمار مسائل کاسامنا ہے۔

پاکستان،افغانستان،ایران،عراق،شام،لیبیا،تیونس،الجیریا،مراکو،البانیہ،یوکرائن،رومانیہ،بلغاریہ اورافریقی ممالک سے ہے ان کے علاوہ غیرقانونی طریقہ سے روزانہ ہزاروں کی تعداد میں غیر قانونی پناہ گزین یونان داخل ہورہے ہیں تاکہ یہاں سے وہ یورپ کے دیگرممالک کارخ کرسکی فہرست میں شامل البانیہ،رومانیہ اوربلغاریہ کے افراد کویونان آنے کے لیے کسی ویزے یاخصوصی اجازت نامے کی ضرورت نہیں یونان نے ان تینوں ممالک کے لیے یورپی یونین کے قواعد کے تحت آنے جانے پرپابندی اٹھارکھی ہے۔ان غیرقانونی تارکین وطن کی وجہ سے ایتھنز سمیت یونان کے دیگرشہروں میں جرائم میں بے پناہ اضافہ ہواہے لیکن یونان کے معاشی حالات کے پیش نظر یونانی شہریوں کااس بحرانی دور میں کردار کودیکھاجائے تو ان کے بڑے بڑے کاروباری حضرات اورسرمایہ داروں نے حکومت کوویلیوایڈڈ ٹیکس کی صورت میں اربوںکی ادائیگیاں کرنی ہیں جن کوقانون سازی کرکے گرفتارکیاجارہاہے،محنت کشوں کے ٹیکسوں کوچوری کیاجارہاہے،قیمتوں میں اضافے کرکے ملک میں مصنوعی بحران اورمہنگائی کوبڑھاکراپنی تجوریوں کوبھر رہے ہیں۔

یونانی محنت کش یونان کے حالات کے باعث دیگر یورپی ممالک کے علاوہ آسٹریلیا اورکینیڈا کارخ کررہے ہیں۔نوجوان یونانی شہری تعلیم مکمل کرکے روزگار کے لیے دیگر ممالک جن میں جرمن،آسٹریلیا،کینیڈا،امریکہ اوردیگر یورپی ممالک جاکر مستقبل سنوارنے کی کوششوں میں ہیں۔ ان حالات اورحکومت کی ناقص پالیسیوں کے باعث یونان کی سوشلسٹ پارٹی کی حکومت نے گزشتہ سال نومبر میں حکومت ختم کرکے نگران حکومت قائم کی جس میں چھوٹی جماعتوں کوبھی شامل کرکے چھ مئی کوہونے والے انتخابات تک ملک کے معاملات چلانے کااختیاردیاجس میں سے ایک سیاسی قوم پرست جماعت لاؤس نے فروری میں نگران حکومت سے علیحدگی اختیارکرلی ۔یونانی معاشی بحران نے دوحکومتوںکی قربانی کے بعد اب اسی دور کے اندر چھ مئی کویونان کے نئے انتخابی معرکے میں سرگرمی پیداہوچکی ہے قریباً تمام جماعتوں نے اپنے امیدواروں کے ناموں کی فہرست جاری کردی ہیں۔

یونان کی دوبڑی جماعتوں پاسوک(پان ہیلینک سوشلسٹ پارٹی) اور قدامت پسند جماعت نیوڈیموکریٹک کے درمیان سخت انتخابی معرکہ ہے تازہ ترین سروے اور مقبولیت کے اعتبار سے دونوں کوتقریبایکساں مقبولیت حاصل ہے بہت ممکن ہے کہ دونوں جماعتیں انتہائی کم شرح سے ایک دوسرے سے سبقت حاصل کرلیں،دیگرجماعتوں میں لیفٹ کولیشن اتحاد(سیرزا)،کمیونسٹ پارٹی،آرتھوڈوکس پاپولر ریلی(لاؤس) کوتین تاچار فی صدتک نشستیں ملنے کی توقع ہے جبکہ اس انتخابی معرکے میں نووارد جماعت نیونازی کہلانے والی جماعت خریسی اووگی(گولڈن ڈان) نے بھی اپنے امیدواران کااعلان کردیاہے تاہم اس کی تشدد آمیز سرگرمیوں سے تمام سیاسی جماعتیں خائف ہیں۔

یونان کی چھوٹی جماعتیں جن میں ڈیموکریٹک الائنس جس کی سربراہ سابقہ وزیر خارجہ یونان محترمہ دورہ باکویانیس ہیں جن کوان کے والد کی بنائی جماعت نیوڈیموکریٹک سے الگ کردیا گیا تھا جنھوں نے بعدازاں نئی جماعت کی بنیاد رکھی تاہم ان کے والد می چوتاکیس تاحال اپنی سابقہ جماعت کے رکن ہیں کے علاوہ گرین پارٹی اوردیگر محنت کش جماعتوں کے بھی ایک آدھ نمائندوں کی پارلیمنٹ میں رکنیت ہوسکتی ہے ان جماعتوں کے علاوہ چھ مئی کے عام انتخابات میں چھتیس پارٹیاں حصہ لے رہی ہیں۔

یونان کے معاشی بحران سے سیاسی عدم استحکام کوجنم دینے والے ماحول نے انتخابی مہم میں نئے رخ کواختیار کرلیاہے معاشی بحران،اقتصادی مسائل،بے روزگاری،مہنگائی،امن عامہ،ٹیکسوں کے بوجھ،عالمی مالیاتی اداروں سے جان چھڑانے جیسے نعروں اورلوگوں کوبہلانے کے وعدوں کے ساتھ ساتھ اس انتخابی مہم میں سب سے زیادہ پرکشش نعرے غیرقانونی تارکین وطن کے حوالے سے لگائے جارہے ہیں اوراس کوانتخابی مہم کاکامیاب حصہ بنانے کے لیے پارٹی سربراہان نئے نئے منصوبہ جات اوراعلانات کرتے نظرآرہے ہیں تمام جماعتیں سیاسی نعروں کے ساتھ غیرقانونی تارکین وطن کی وجہ سے پیداہونے والے مسائل کی نشان دہی کرتے نظر آرہے ہیںاور عوام سے منتخب کیے جانے کی صورت میں ان کے بنیادی حل کادعویٰ کررہے ہیں۔ماضی میں تارکین وطن کویکساں حقوق دینے انسانی ہمدردی کے تحت مراعات دینے اورقانونی حثیت کے تارکین وطن کویونانی معاشرے میں انضمام کی خاطر اقدامات کرنے کے نعرے ہواہوگے ہیں۔ انتخابات کے سلسلے میںیونان کی اہم سیاسی پارٹیوں کے موقف کچھ اس طرح ہیں۔

یونان کی سب سے بڑی جماعت اورموجودہ نگران حکومت کی جانب سے انتخابات کے اعلان سے چند ماہ قبل اپنے سابقہ دور میں اعلان کیا تھاکہ وہ سرحد پرترکی کے ساتھ واقع زمینی سرحد پرآہنی باڑ تعمیر کرے گی جس پر نگران حکومت نے کام شروع کرادیاہے جبکہ سابقہ وزیرامن عامہ خرستوپاپاچویس نے باڑ کی تعمیر کی شروعات کے بعد ایتھنز سمیت دیگربڑے شہروں میں غیرقانونی پناہ گزینوں کے خلاف چیکنگ کاسلسلہ جاری کیالیکن سب سے بڑا مسئلہ غیرقانونی تارکین وطن کورکھنے کاتھاکہ یونان کی تمام جیلیںتوبھری ہوئی ہیں اورگنجائش سے زائد قید ی موجود ہیں جس کے لیے عارضی طورپریہ حل نکالاگیاکہ رضاکارانہ سکیم کے تحت تارکین وطن کویونان چھوڑنے کی ترغیب دی گئی جس میں ان کوتین سویورو امداد علاوہ سفری اخراجات کے دینے کا اعلان ہوااس کایہ فائدہ ہواکہ گزشتہ ایک سال کے دوران یورپی یونین کے فنڈ سے روانہ کیے جانے والے غیرقانونی تارکین وطن کی اپنے وطن کوواپسی میں تیزی آئی۔

سابقہ وزیر امن عامہ نے پارٹی قیادت کی صدارت کی غرض سے اپنی وزارت چھوڑی اوردوبارہ سے پہلے وزیر امن عامہ بنائے گے میخائیلس خریسوخودیس نے انتظام سنبھالا جنھوں نے سب سے پہلے پولیس فورس کوزیادہ کیااورسابقہ ادوار میں دی جانے والی ایک تجویز جس کے تحت ناقابل استعمال فوجی چھاؤنیوں کوحراستی مراکز میں تبدیل کرنے کے منصوبے پرانتہائی سرعت سے کام شروع کرکے غیرقانونی تارکین وطن کی پکڑ دھکڑ کوتیز کردیا۔انھوں نے تیسمقامات پران حراستی مراکز کوقائم کرنے کااعلان کرتے ہوئے عمل درآمد شروع کردیاجس سے ان کویونانی عوام میں سیاسی فائدہ حاصل کرنے کاموقع میسر آسکا اورپارٹی کیلیے ووٹ حاصل کرنے کی راہ کوہموارکیادریں اثنا سوشلسٹ پارٹی نے قانونی حثیت کے تارکین وطن کومزید مراعات دینے متعدد اعلانات سے یکسرخاموشی اختیار کرلی ہے۔

پاسوک پارٹی کے سربراہان کایہ بھی کہناہے کہ وہ غیرقانونی تارکین وطن کی آمد کوروکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں گے اورعالمی اداروں اوریورپی یونین سے اس سلسلہ میں فنڈ بھی لے لیے ہیں تاکہ غیرقانونی تارکین وطن کو یونان بدری میں تیزی لاسکیں۔یونان کی دوسری بڑی جماعت نیوڈیموکریٹک کاانتخابی عمل میں کہناہے کہ غیرقانونی تارکین وطن نے یونانی معاشرے اور ماحول کوانتہائی مکدر کردیاہے جس کے باعث یونانی شہری عدم تحفظ کا احساس رکھتے ہیں اوران کے باعث یونانی شہری بے روزگاری اورجرائم کاسامنا کررہے ہیں ۔نیوڈیموکریٹک پارٹی نے پاسوک حکومت پرتنقید کرتے ہوئے انتخابی مہم میں عوام کومتوجہ کررہے ہیں کہ پاسوک پارٹی کی ناقص حکمت عملی تارکین وطن کوشہریت اوربلدیاتی انتخابات میں ووٹ دینے کے حق جیسے قانون کومنظورکرانے کے باعث تیسری دنیا کے ممالک کے افراد نے یونان کارخ کرلیاہے انھوںنے اعلان کررکھاہے کہ وہ حکومت میں آکر غیرملکیوں کے قانون شہریت،ووٹ کے حق اورتارکین وطن کے بچوں کو شہریت دینے کے قانون میں ترامیم کریں گے اورشرائط کوسخت رکھیں گے۔

غیرقانونی تارکین وطن کے حوالے سے ان کاکہناہے کہ یورپی یونین کے ڈبلن دوئم معاہدے کاازسرنوجائزہ لینے کامطالبہ کرنے کے ساتھ ساتھ یورپی یونین کوغیرقانونی تارکین وطن کے مسائل سے نمٹنے کے لیے ہرممکن مدد فراہم کرنے پرآمادہ کیاجائے گاکیونکہ یونان یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں پرواقع ہے اوراس کوسب سے زیادہ غیرقانونی تارکین وطن کی آمد کاسامناہے۔نیوڈیموکریٹک کے سربراہ انتھونی سمارا نے اپنے انتخابی بیان میں واشگاف الفاظ میں یونانی عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ ہے وہ اپنے شہروں کوغیرقانونی تارکین وطن سے واپس لیں اورشہروںکوجرائم سے آزاد کرائیں۔نیوڈیموکریٹک پارٹی نے ترکی کے ساتھ بھی دوٹوک بات کرنے کاعندیہ دیاہے تاکہ غیرقانونی تارکین وطن کی ترکی کی جانب سے آمد کوروکاجاسکے۔یونان کی تیسری سیاسی قوت بائیں بازو کی جماعتوں کا اتحاد ہے جس کوسیرزا کہاجاتاہے۔

سیرزا کا انتخابی مہم میں تارکین وطن کے حوالے سے موقف واضح ہے ان کاکہنا ہے کہ وہ انسانی حقوق کی پاسداری کرتے ہیں لیکن غیرقانونی تارکین وطن ان کی معاشی ومعاشرتی لحاظ سے انتہائی زیادہ ہے جس کے باعث ملک ایک بوجھ کومسلسل ڈھونے میںمصروف ہے ان کاکہنا ہے کہ غیرقانونی تارکین وطن کو ٹھوس پالیسی کے تحت کارآمد بنایاجاسکتاہے تاہم یہ ضروری ہے کہ غیرقانونی تارکین وطن کی آمد کوروکا جائے کیونکہ ہرسال ڈیڑھ لاکھ غیرقانونی تارکین وطن کی یونان آمد لمحہ فکریہ ہے اوراس کے لیے عالمی قوتوںکوبھی غورکرناہوگا۔یونان کی کمیونسٹ پارٹی KKEکاتارکین وطن کے حوالے سے موقف ہے کہ شہروں کو جرائم سے پاک کرنے کے لیے ناصرف غیرقانونی تارکین وطن کورجسٹرڈ کیاجائے بلکہ تمام افرادکاریکارڈ رکھاجائے کہ وہ کس علاقے میں رہائش پذیر ہیں ۔کمیونسٹ پارٹی کاموقف ہے کہ غیرقانونی تارکین وطن کا بوجھ یونان کوعالمی سرمایہ دار ممالک کی ناقص پالیسیوں ان کی جنگ جویانہ سوچوں کی وجہ سے سہنہ پڑرہاہے لہذا غیرقانونی تارکین وطن کوبہتر معاشی ومعاشرتی دھارے میں شامل کرنے کی خاطر عالمی ادارے مدد کریں۔

ان کاکہناہے کہ ہر انسان کوکسی بھی ملک میں رہنے اوراپنے مستقبل کوبہتر بنانے کاحق حاصل ہے تاہم اس کیلیے ضروری ہے کہ ان کوقانونی طورپر قومی دھارے میں شامل کیاجائے ان کاکہناہے کہ جنگوں کوروک کرتارکین وطن کی ہجرت کوروکاجاسکتاہے جنگوں میں جھونکے جانے والے وسائل کوغریب ممالک پرخرچ کرکے ان کوان کے ممالک میں ہی بہتر مستقبل دیاجاسکتاہے۔کمیونسٹ پارٹی کاموقف ہے کہ وہ یونان میں مقیم غیرقانونی تارکین وطن کوقانونی حثیت دے کرمعاشی دھارے میں اہم مقام دے سکتے ہیں اس سے ناصرف معاشرے کے لیے بہتری ہوگی بلکہ یونان کولیبر مارکیٹ میں بھی کافی مدد ملے گی۔یونان کی دائیں نظریات کی حامل جماعت پاپولر آرتھوڈوکس ریلی جس کوعرف عام میں لاؤس کہاجاتاہے نے حکومت سمیت دونوں بڑی جماعتوں کوغیرقانونی اورقانونی حثیت کے تارکین وطن کے حوالے سے آڑے ہاتھوں لیاہے۔لاؤس جوکہ اس سے قبل بھی یونانی پارلیمنٹ میں واشگاف الفاظ میں ناصرف قانونی وغیر قانونی تارکین وطن کے خلاف سخت رویہ اپناچکی ہے بلکہ وہ مسلمانوں کے خلاف بھی پارلیمنٹ میں زہر افشانی کرچکی ہے۔لاؤس کے صدر یورگوس کراجافیریس نے ماضی میں جب قانونی حثیت کے تارکین وطن کوشہریت دینے،ووٹ کاحق اور تارکین وطن کے بچوں کومراعات اورقومیت دینے کے مسود ہ قانون پربحث کے دوران کہناتھاکہ امریکہ برطانیہ اوردیگر عالمی قوتیں ہم یونانیوںکواپنے ملک میں گھسنے نہیں دیتی کیونکہ ان کاکہناہے کہ تمھارے ملک میں ایک ملین سے زائد مسلمان ہیں جوکہ کسی بھی وقت ان کے لیے دہشت گردی کاسبب بن سکتے ہیں۔

ان کاکہناہے کہ ہم آرتھوڈوکس عیسائی ہیں اورماضی میں ہم کومسلمانوں کی وجہ سے جونقصانات اٹھانے پڑے ہیں وہ ناقابل تلافی ہیں ہم اپنے معاشرے کواسلام سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔یونانی پارلیمنٹ کے ریکارڈ پران کے بیانات موجود ہیں جس میں انھوں نے مسلم کمیونٹی کودہشت گرد اورمسلمان ممالک کے تارکین وطن کومراعات دینے کے حوالے سے کہا تھاکہ وہ اسلام کی عزت کی کرتے ہیں لیکن مسلمانوں کی وجہ سے ہمارا ملک تخریب کاری اوردہشت گردی کامرکز بن سکتاہے جوکہ ناصرف ہمارے لیے بلکہ دنیا کے امن کے لیے بھی خطرہ ہیں اسی لیے امریکہ ہم کوانٹری فری ملک قرار نہیں دے رہاکہ یہاں غیرقانونی تارکین وطن موجود ہیں جوکسی بھی وقت کسی کے لیے بھی خطرے کاباعث ہوسکتے ہیں۔

موجودہ انتخابی مہم میں لاؤس کاکہناہے کہ غیرقانونی تارکین وطن کوشہروں سے دور اورعوام کوان کے شر سے محفوظ رکھاجائے،ان کاکہناہے کہ شہروں میں جرائم کاسبب غیرقانونی تارکین وطن ہیں جس کے باعث ہمارے شہری روزمرہ زندگی میں غیرمحفوظ ہوچکے ہیں۔انتہائی سخت لہجے میں ان کاکہناہے کہ ترکی سے آنے والے پناہ گزینوںکوترکی کے حوالے کریں اورترکی کے خلاف ڈٹ جائیں۔ان کاکہناہے کہ اچھا اسی میں ہے کہ غیرقانونی تارکین وطن یونان سے چلے جائیں۔انھوں نے عوام سے ووٹ مانگتے ہوئے کہاکہ اگر وہ اقتدار میں آتے ہیںتوغیرقانونی تارکین وطن کوپکڑ پکڑ کران کے ممالک روانہ کرنے کے علاوہ قانونی حثیت کے تارکین وطن کے خلاف بھی قانون سخت کریں گے کیونکہ ان کی وجہ سے ہی غیرقانونی تارکین وطن کاوبال یونان کے سرآیاہے۔

یونان کی سب سے متشدد جماعت جس نے حالیہ انتخابات میں نمایاں منظرنامہ حاصل کیاہے اوریونان کے سیاسی عکس میں اس کوایک خاص حوالے سے مقبولیت حاصل ہورہی ہے یہ جماعت نازی نظریات کی نیونازی کہلانے والے خریسی اووگی(گولڈن ڈان) ہے جس کاووٹ بینک یونانی نوجوان ہیں۔نیونازی جماعت تمام تارکین وطن کے سخت مخالف ہے اوران کاواضح انتباہ ہے کہ تمام تارکین وطن یونان چھوڑجائیں ورنہ ان کی جانب سے کارروائی کاانتظار کریں۔

خریسی اووگی کے غنڈے گروپوں کی شکل میں تارکین وطن کونشانہ بناتے ہیں ان کی کارروائیوں کاسب سے زیادہ شکار پاکستانی ہیں ان کاکہناہے کہ پاکستانیوں کی وجہ سے دیگر تارکین وطن کویونان میں سراٹھانے کاموقع ملاہے کوئی جلوس ہویااحتجاج پاکستانی ہرموقع پرآگے ہوتے ہیں۔ان کے مذہبی جلوس اوردیگر تقریبات کودیکھ کردیگر ممالک کے افراد کوبھی سرابھارنے کاموقع ملاہے۔نیونازی گروپ کاکہناہے کہ یونان کی دیگر سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے لیے تارکین وطن کاسہارا لیتی ہیں اوراس پرسیاست کرتی ہیں جس سے ہمارے ملک کابیڑاغرق ہورہاہے اس لیے ہم تمام تارکین وطن کووارننگ دیتے ہیں کہ وہ یونان چھوڑجائیں۔خریسی اووگی نے بھی موجودہ سیاسی انتخابات میں اپنے امیدوار نامزد کیے ہیں اوراپنی انتخابی مہم میں وہ دیگر جماعتوں کے کارکنان اورامیدواروں کوبھی سخت الفاظ میں ان کی انتخابی مہم کے دوران نعرے لگاتے ہیں اورپرتشدد ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔خریسی اووگی کے متشددانہ رویے پرتمام سیاسی جماعتیں سخت موقف رکھتی ہیں اوران کوملک اورجمہوریت کے لیے خطرہ قراردے رہے ہیں اورعوام کونازی ازم سے بچنے کی اپیل کرتے ہوئے ان کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں پرتشویش رکھتی ہیں۔خریسی اووگی کے کارکنان جب بھی احتجاجی ریلی یاکوئی جلوس نکالتے ہیں تو راستے میں ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ کرنے کے ساتھ ساتھ غیرملکی افراد کوتشددکانشانہ بنانا اپنافرض سمجھتے ہیں۔ان کاکہناہے کہ یونان میں صرف یونانیوں کورہنے کاحق ہے کسی بھی غیرملکی کونہیں۔

اپنے انتخابی نعرے میں خریسی اووگی اعلان کرتی ہے کہ وہ یونان کوغیرملکیوں سے صاف کرکے رہے گی اوراس کے لیے ہرممکن ہتھکنڈہ استعمال کرے گی۔یونان کی انتخابی مہم کے دوران غیرقانونی تارکین وطن کاایشو اہم تصورکیاجارہاہے تاہم یہ حقیقت ہے کہ یونان میں مقیم غیرقانونی تارکین وطن کومستقبل میں انتہائی زیادہ مشکلات سے دوچار ہونا پڑے گا اوراس کے لیے ضروری نہیں کہ حکومت سوشلسٹ ہو یا ڈیموکریٹک جبکہ قانونی حثیت کے تارکین وطن کے لیے بھی یونان کی سرزمین فی الحال تنگ ہوتی جارہی ہے جس میں ان کواپنے تحفظ اوراپنے مستقبل کومحفوظ رکھنے کے لیے انتہائی سختتگ ودو اورمزید قربانیاں دینا ہوگی۔تجزیہ وتحریر : سکندرریاض چوہان