یورپ کی طرف تارکین وطن کا بہاؤ روکنے کی مصری کوشش

Meeting

Meeting

یورپ (اصل میڈیا ڈیسک) ہنگری کے وزیر خارجہ نے یورپ کی طرف تارکین وطن کا بہاؤ روکنے کی مصری کوششوں کو سراہتے ہوئے یورپی یونین پر زور دیا ہے کہ وہ مصر کی اس سلسلے میں حمایت کرے اور اس کے لیے فنڈنگ کے ذریعے مدد کرے۔

یورپ کی طرف تارکین وطن کے بہاؤ کا مرکزی راستہ بحیرہ روم کا ساحلی علاقہ ہوتا ہے۔ شمالی افریقہ کو مشرق وسطیٰ سے ملانے والا ملک مصر کچھ عرصے سے یورپ کی طرف بڑھتے ہوئے تارکین وطن کے سیلاب کو ممکنہ حد تک کم کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ مصر کے دورے پر گئے ہوئے ہنگری کے وزیر خارجہ نے بُدھ کو بحیرہ روم کے ساحل پر پورپ پہنچنے کی کوششوں میں مصروف تارکین وطن کے بہاؤ کو روکنے کی مصری حکومت کی کوششوں کی تعریف کی۔ مصری دارالحکومت قاہرہ میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ہنگری کے وزیر خارجہ Szijjarto Peter نے یورپی یونین سے مطالبہ کیا کہ وہ مصر کی اس سلسلے میں حمایت میں اضافہ کرے اور قاہرہ حکومت کے لیے مدد کے طور پر فنڈنگ کا بندو بست کرے۔ ہنگری کے وزیر خارجہ نے یہ بیانات اپنے مصری ہم منصب سامع شکری کے ساتھ ملاقات کے بعد دیے۔

بین الاقوامی ادارہ برائے ترک وطن کے مطابق مصر اس وقت چھ ملین سے زائد مہاجرین یا تارکین وطن کی میزبانی کرنے والا ملک ہے۔ ان تارکین وطن میں سے نصف تعداد یعنی تین ملین افریقی ملک سوڈان، خاص طور سے جنوبی سوڈان کے باشندے ہیں۔

اس افریقی ملک میں پائے جانے والے تنازعات کے سبب ہر سال دسیوں ہزار انسان گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ بہت سے تارکین وطن کے لیے مصر ایک پناہ گاہ اور منزل ہے جو ان کے قریب ترین واقع ملک ہے جہاں داخل ہونا ان کے لیے سب سے زیادہ آسان عمل ہے۔ دوسری جانب ایسے افراد بھی ہیں جن کے لیے یورپ کی طرف بڑھتے ہوئے، بحیرہ روم کو عبور کرنے کی خطرناک کوشش کے لیے مصر ایک اہم گزرگاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔

مصری حکومت نے حالیہ برسوں میں تارکین وطن کے لیے کافی سختی بھی کی ہے۔ قاہرہ حکومت نے سرحدی سکیورٹی اقدامات سخت تر کرتے ہوئے کوشش کی ہے کہ مصر یورپ میں داخلے کے خواہش مند تارکین وطن کے لیے سب سے بڑا اور روانگی کا مرکزی مقام نہ بنے۔ 2015 ء سے یورپی یونین میں شامل کئی ممالک نے اپنی اپنی قومی اور یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کی نگرانی کے لیے خار دار باڑیں بھی لگا دی ہیں۔ ساتھ ہی سرحدی نگرانی کے لیے ڈرون بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں یورپی یونین نے ترکی اور لیبیا کے ساتھ تارکین وطن کو روکنے کے حوالے سے معاہدے بھی کیے ہیں۔

ادھر ہنگری کے عوامیت پسند وزیر اعظم وکٹور اوربان یورپ میں تارکین وطن کی آمد کے سخت مخالف ہیں اور اس سوچ کا اظہار واضح انداز میں کر تے رہتے ہیں۔ انہوں نے یہاں تک کہہ رکھا ہے، ”تارکین وطن یورپ کی مسیحی اقدار اور ثقافت میں تبدیلی کا ایک بڑا خطرہ ہیں۔ مزید یہ کہ غیر قانونی تارکین وطن کووڈ انیس جیسی بیماری کا سبب بننے والے مختلف وائرس ویریئنٹس کو یورپ لانے اور یہاں پھیلانے کا سبب بھی بنے ہیں۔‘‘

مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے گزشتہ ماہ تارکین وطن کے بحران سے نمٹنے کے لیے یورپ کے طریقہ کار اور یورپی سرحدوں تک پہنچنے والے مہاجرین کو یورپ میں داخل نہ ہونے دینے پر سخت تنقید کی تھی۔