لتا منگیشکر 82 سال کی ہوگئیں

Lata Mangeshkar

Lata Mangeshkar

لتا کی آواز ایک ایسا جادو ہے جو پچھلے 60 سالوں سے مسلسل کانوں میں رس گھولتا آیا ہے۔ بہتے جھرنوں جیسی، دھیمی نرم رو، چاندنی جیسی یا پھر جنگل کی گھنی سرسبز ہریالی میں گونجتی کوئل کی کو کو ۔۔ جس کا ترنم، رچا اور سریلا پن سننے والوں پر سحر طاری کردیتا ہے ۔ ۔۔لتا کی ہرتان دیپک ہے، جو سماعتوں میں دِیے جلاتی ہے۔ اس کی ہر لے یوں ہے کہ جیسے آن کی آن میں شعلہ سا لپک جائے۔ وہ سات سروں کا ایسا بہتا دریا ہے، جس کی لہریں اپنی جولانی پر ہیں اور بلامبالغہ نصف صدی سے زائد کا عرصہ ہونے کو آیا ہے، مگر یہ آواز، اس کا ترنم، اس میں رقص کرتے ہوئے سر اور جادو جگاتی تانیں، آج بھی تروتازہ ہیں۔ گویا نصف صدی کی گرد نے انہیں چھوا تک نہیں اور وقت سہولت سے اس آواز کے سنگھاسن سے پہلوبچا کر نکل گیا ہے۔”لتا کی آواز نے چھ دہائیوں کا سفر طے کیا، تین نسلیں اس عہد میں جوان ہوئیں اور وہ ان تین نسلوں کی پسندیدہ گلوکارہ ٹھہریں۔ 30,000 سے زائد نغمے گانے پر لتا کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں دنیا کی سب سے زیادہ گانے گانے والی گلوکارہ کی حیثیت سے درج ہے۔بھارت میں موسیقی پر ملنے والا کون سا اعزاز ہے جو لتا کے حصے میں نہیں آیا۔ سن 2000 میں لتا کو وائس آف ملینیم  قرار دیا گیا۔ 2001 میں انہیں اعلی ترین سول اعزاز “بھارت رتن” دیا گیا۔1945کی بات ہے ۔ ریاست مدھیہ پردیش سے تعلق رکھنے والی ایک دبلی پتلی اور معمولی نقش و نگار کی حامل سانولی، سلونی مراٹھی زبان بولنے والی لڑکی اپنے گھریلو معاشی مسائل کو حل کرنے کے لیے موسیقی کی دنیا میں داخل ہونا چاہتی تھی اس لیے کہ قدرت کی طرف سے اسے خوب صورت آواز سے نواز گیا تھا۔ وہ سر سنگیت کی باریکیاں بھی سمجھتی تھی۔ موسیقار غلام حیدر، اس کی ان صلاحیتوں سے واقف تھے۔ ایک دن وہ 16سالہ لتا کو ممبئی کے ایک فلم ساز ایس مکرجی کے پاس لے کرگئے اور کہا کہ اس لڑکی کو اپنی فلموں میں گانے کا چانس دیں۔ لیکن فلم ساز نے لتاکو سنے بغیر رد کر دیا۔لتا کا بچپن ناخوش گوار حالات میں گزرا۔ بچپن اور نوجوانی کا دور انہوں نے ان معاشی مسائل سے لڑتے ہوئے گزارہ جو والد کے مرنے کے بعد چھ افراد کے خاندان کو ترکے میں ملے۔ لتا کے والد دیناتھ منگیشکر، اوسط درجے کے موسیقار تھے۔ گھر کی گزر اوقات کے لیے انہوں نے ایک میوزیکل تھیٹر بنا رکھا تھا، جو شہر شہر جا کر لوگوں کی تفریح طبع کے لیے موسیقی کے چھوٹے چھوٹے پروگرام کرتا، جنہیں وہ سنگیت ناٹک کا نام دیا کرتے تھے۔لتا، دیناتھ منگیشکر اور ان کی دوسری بیوی، شدھ مائی منگیشکر کے گھر ہونے والی پہلی اولاد تھیں۔ لتا کی جائے پیدائش اور تاریخ پیدائش مدھیہ پردیش، 28ستمبر 1929 درج ہے۔ پیدائش پرگھر والوں نے بچی کا نام ہیما رکھا، جو بعدازاں ایک جوتشی کے کہنے پر بدل کر لتا رکھ دیا گیا۔ لتا کے بعد ان کی تین اور بیٹیاں آشا، اوشا اورمینا اور ایک بیٹا ہری ناتھ منگیشکر پیدا ہوئے۔ لتا کے والد دیناتھ منگیشکر کا تعلق موسیقی کے گوالیار گھرانیسے تھا، اس لیے وہ اپنے بچوں کو موسیقی کی تربیت دینے کا اہتمام کرتے۔ لتا کو انہوں نے 5برس کی عمر میں موسیقی سکھانا شروع کی۔ یوں لتا کے پہلے استاد ان کے والد ہی ہیں۔ کے ایل سہگل، دیناتھ منگیشکر کے پسندیدہ گلوکار تھے۔ آغاز میں وہ سہگل کے گانے اور دھنیں لتا کو سکھاتے۔1942 کا سال منگیشکر خاندان کے لیے بہت برا ثابت ہوا۔ بڑھتے ہوئے اخراجات اور پیسے کی کمی اور کام کے دبا نے دیناتھ کی صحت کو خراب کردیا تھا۔ ایک شام انہیں دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا۔ یوں دیناتھ منگیشکر نے ترکے میں ایک بیوہ اور پانچ بچوں کے لیے بے شمار معاشی مسائل چھوڑے۔اسی دور میں گھر کے اخراجات کو چلانے کے لیے 13سالہ لتا کو ہندی اور مراٹھی فلموں میں چھوٹے چھوٹے کردار کرنا پڑتے۔اس کے علاوہ وہ وہ اس وقت کیمشہور گلوکاروں کے گائے ہوئے گانے بھی بہ خوبی کاپی کرنے لگی تھیں۔یوں لتا کی آواز میں ریاضت کا اثر بھی نمایاں ہونے لگا۔سن 1947 میں لتا کو باقاعدہ طور پر فلموں میں گانے کا موقع ملا۔ لتا نے فلم آپ کی سیوا میںکے لیے گلوکاری کی۔ اس کے بعد وتا دیوجے کار نے لتا سے فلم مجبور کے گانے انہیں دیئے۔ ان میں دوگانے مجھے کہیں کا نہ چھوڑا تیرے پیار نے اور انگریزی چھورا چلا گیا مقبول ہوئے مگر لتا کو صحیح معنوں میں 1949 میں بریک تھرو ملا جب انہوں نے فلم محل کے لیے گیت گایا۔ اپنے وقت کی حسین اداکارہ مدھو بالا پر پکچرائز ہونے والا اسی فلم کا گانا آئے گا آنے والا بے حد مقبول ہوا۔اسی سال راج کپور نے فلم برسات کے گانے لتا کی آواز میں ریکارڈ کرائے۔اس فلم کے بھی دو گانے جیابے قرار ہے اور چھوڑ گیا بلم سپر ہٹ ہوئے ۔یہیں سے لتا کی کامیابیوں اور شہرت کا وہ سفر شروع ہوا جو وچھ دہائیاں گزرجانے کے بعد آج تک جاری ہے۔لتا کے مقبول و معروف گانوں کی فہرست نہایت طویل ہے۔ چاند پھر نکلا ، آج پھر جینے کی تمنا ہے ، پاکیزہ کا گانا یونہی کوئی مل گیا تھا سرِ راہ چلتے چلتے فلم دِل سے کا کلاسیکل گانا جیا جلے، جاں جلے ، اٹھائے جا ان کے ستم، اے دِل ناداں جیسے کئی گانے سننے والوں کی سماعت سے اتر کر یادداشتوں کا حصہ بن چکے ہیں۔گائیکی کے نصف صدی سے زائد کے کیریئر میں آج بھی ان کی آواز 16سالہ لڑکی کی آواز کی طرح جوان اور کھنکتی ہوئی ہے۔ بھارت فلم انڈسٹری میں مدھو بالا سے مادھوری اور پھرکاجول سے پریتی زنٹا تک، ہر بڑی اور مشہور ہیروئن پر اس خوب صورت آواز میں گانے پکچرائز ہو چکے ہیں۔لتا کی اسکول کی تعلیم واجبی سی ہے مگر دنیا کی کئی یونیورسٹیاں انہیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری دے چکی ہیں۔ دنیا بھر میں لتا کی آواز کے لاکھوں چاہنے والے موجود ہیں۔ وہ جہاں جاتی ہیں، لوگ سنگیت کی اس دیوی کو اپنے سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔ ان کی آواز کو خراج تحسین پیش کرنے کے لییاب تک متعدد کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔وہ ایشیا کی پہلی گلوکارہ ہیں، جنہیں پلاٹینیم ڈسک آف ای ایم آئی ملنے کا اعزاز ملا۔ 1984 میں مدھیہ پردیش کی حکومت نے لتا کے اعزاز میں لتا منگیشکر ایوارڈ کا اجرا کیا، جس میں ایوارڈ کے ساتھ ایک لاکھ نقد انعام بھی شامل ہے۔ اس کا سب سے پہلا ایوارڈ اپنے طرزکے بڑے موسیقار نوشاد کو دیا گیا۔ لتاکے نام سے پرفیوم بھی بھارت کی مارکیٹ میں آچکا ہے۔ لتا ایشیا کی وہ واحد گلوکارہ ہیں جن کے سب سے زیادہ گانے موبائل فون کی گھنٹی کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔بے مثال شہرت حاصل کرنے والی لتا نے تمام عمر شادی نہیں کی۔ یہ وہ سوال ہے، جس کا سامنا آج بھی انہیں کرنا پڑتا ہے۔ ایک مرتبہ اس کا جواب دیتے ہوئے لتا منگیشکر نے کہا اگر میں شادی کر بھی لیتی تو یہ کامیاب نہ ہوسکتی، موسیقی سے میرا لگا اور محبت ان چیزوں سے بڑھ کر ہے، زندگی تنہا مشکل ہے، لیکن شاید یہ اچھا ہی ہوا۔