مرگِ سوزِ محبت

 Contemplating

Contemplating

آئو کہ مرگِ سوزِ محبت منائیں ہم
آئو کہ حسن ماہ سے دل کو جلائیں ہم
خوش ہوں فراقِ قامت و رُخسارِ یار سے
سرو وگل و سمن سے نظر کو ستائیں ہم
ویرانِی حیات کو ویران تر کریں
لے ناصح آج تیرا کہا مان جائیں ہم
پھر اوٹ لے کے دامنِ ابرِ بہار کی
دل کو منائیں ہم کبھی آنسو بہائیں ہم
سلجھائیں بے دلی سے یہ اُلجھے ہوئے سوال
واں جائیں یا نہ جائیں، نہ جائیں کہ جائیں
پھر دل کو پاسِ ضبط کی تلقین کر چکیں
اور امتحانِ ضبط سے پھر جی چرائیں ہم
آئو کہ آج ختم ہوئی داستانِ عشق
اب ختمِ عاشقی کے فسانے سنائیں ہم

فیض احمد فیض