مصنوعی آنکھ۔۔لاکھوں زندگیوں کی روشنی لوٹا سکتی ہے

وہ دن اب کچھ زیادہ دور نہیں ہے جب بینائی سے محروم افراد اپنے اردگر پھیلے ہوئے رنگوں کو دیکھ سکیں گے کیونکہ سائنس دانوں نے حال ہی میں مصنوعی آنکھ بنانے میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔

Artificial Eye

Artificial Eye

بینائی پر تحقیق کرنے والے سائنس دانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ آنکھ کے پردے میں موجود اس خلیے کے کوڈ تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے ہیں جو دماغ کو برقی پیغام بھیجتا ہے۔

دیکھنا ایک پیچیدہ عمل ہے اور کسی چیز کی طرف دیکھنے اور اس کے نظر آنے کے درمیان کئی مرحلے ہیں۔ ہوتا یوں ہے کہ جب ہم کسی چیز کو دیکھتے ہیں تو آنکھ کا عدسہ بصارتی پردے پر اس کی الٹی تصویر بناتا ہے۔ یہ پردہ ڈیجیٹل کیمرے کے سینسر کی طرح کام کرتا ہے او برقی لہروں کے ذریعے تصویر کو فوراً دماغ کے اس حصے میں منتقل کردیتا ہے جس کا تعلق دیکھنے سے ہے۔ دماغ اس کا موازنہ یادشتوں سے کرتا ہے اور ہمیں پتا چل جاتا ہے ہم کیا دیکھ رہے ہیں یااس چیز کا رنگ کیا ہے۔
​​​​​​
دیکھنے کا عمل دماغ میں انجام پاتا ہے، آنکھ محض ایک ابتدائی کام کرتی ہے۔ اگر دماغ کا بصارتی حصہ درست کام کررہاہو تووہ مصنوعی آنکھ سے پیغامات وصول کرکے چیزوں کو دیکھ سکتا ہے۔ لیکن اگر اس حصے میں کوئی خرابی ہوتو دیکھنے کا عمل درست طورپر انجام نہیں پاسکتا۔

آنکھ کے پردے پر روشنی پڑنے سے اس کے خلیوں میں ایک مخصوص برقی نقش بنتے ہیں ۔بصارتی خلیوں کے کوڈ تک رسائی کے بعد سائنس دانوں نے مصنوعی بصارتی پردہ تیار کیا جسے انہوں نے ایک ایسے چوہے کی آنکھ میں لگایا جو مکمل طور پر اندھا تھا۔ آلہ نصب ہونے کے بعد چوہے تقریباً نارمل انداز میں دیکھنے کے قابل ہوگیا۔

مصنوعی آنکھ کی تیاری پر ایک عرصے سے کام ہورہاہے ، لیکن اس سے پہلے تک کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔اب تک بننے والی بہترین مصنوعی آنکھ جن مریضوں کو لگائی گئی وہ صرف روشن اور کالے دھبے دیکھنے کے قابل ہوسکے تھے۔جب کہ نئی مصنوعی آنکھ دماغ کو وہی سنگنلز ملتے ہیں جو حقیقی آنکھ کےبصارتی خلیے بھیجتے ہیں۔

نیشنل اکیڈمی آف سائنسز کے جریدے میں شائع ہونےتحقیق میں کہا گیا ہے کہ ماہرین کو یقین ہے کہ نئی مصنوعی آنکھ بہت سے لوگوں کی زندگیاں یکسر تبدیل کردے گی۔

نیویارک کی کارنل یونیورسٹی کی ڈاکٹر شیلا نیرن برگ نے ، جو اس تحقیق کی قیادت کررہی ہیں، کہاہے کہ بصارتی خلیے کا استعمال کرنے سے آنکھ کی کارکردگی اسی طرح بہتر ہوئی ہے جیسے کوئی تصویر ریزولوشن بڑھانے سے زیادہ واضح ہوجاتی ہے۔

دنیا بھر کے طبی سائنس دان طویل عرصے سے بینائی کے اس مرض کا علاج ڈھونڈنے کی کوشش کررہے ہیں جس میں مبتلا ہوکر مریض آہستہ آہستہ بینائی سے مکمل طورپر محروم ہوجاتا ہے۔ یہ مرض بصارتی پردے کے روشنی محسوس کرنے والے خلیو ں کو تباہ کردیتا ہے ، جب کہ آنکھ اور دماغ کااعصابی تعلق قائم رہتا ہے۔

اس مرض کے باعث دنیا بھر تقریباً دو کروڑ افراد ایسے ہیں جو یا تو اپنی بصارت کھوچکے ہیں یا پھر رفتہ رفتہ ان کی زندگی میں تاریکی بڑھ رہی ہے۔

سائنس دانوں کو توقع ہے کہ ان مریضوں کی آنکھوں میں مصنوعی پردہ لگانے سے ان کی بینائی واپس آجائے گی۔

ماہرین کا کہناہے کہ دیکھنے کے لیے صرف ریزولوشن بڑھانا ہی کافی نہیں ہے۔ اصل کام روشنی کی لہروں کو ایسے پیغامات میں تبدیل کرنا ہےجسے دماغ پڑھ سکتا ہو۔ نئی مصنوعی آنکھ میں اسی پہلو کو مدنظر رکھا گیا ہے۔

سائنس دانوں کا کہناہے کہ اندھے چوہے کی آنکھ میں مصنوعی بصارتی پردہ لگانے سے اس کی90 فی صد بینائی واپس آجانے کے بعد لاکھوں انسانوں کی زندگیوں میں روشنی لانے کا راستہ کھل گیا ہے۔