نواز شریف کی ساری باتیں درست ہیں مگر….؟

Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

اگرچہ موجودہ اسمبلیوں کو تحلیل ہونے میں ابھی 45/40 دن رہ گئے ہیں اور اِسی طرح الیکشن کو بھی چار ماہ کے قریب کا عرصہ درکار ہے مگر حیرت انگیز طور پر میرے ملک میں اِن دنوں الیکشن کی فضاء درآئی ہے اور ہر سو الیکشن کی باتیں زوروں پر ہیں جہاں اِس حوالے سے کچھ نئے سیاستدان بھی ہیں جو ہماری ملکی سیاست میں اپنے نئے چہروں کے ساتھ سامنے آنے شروع ہو چکے ہیں تو وہیں یہ اپنے وجود کا احساس دلانے کے لئے الیکشن اور جمہوریت کے حوالے سے بہت سی ایسی اَنہونی بھڑکیاں بھی مار رہے ہیں جن کی نہ تو آئین میں کوئی گنجائش ہے اور نہ ہی ہماری موجودہ بکھری ہوئی سیاسی بساط میں اتنا دم خم ہی باقی رہ گیا ہے کہ یہ اِنہیں برداشت کر لے تو ایسے میں اکثر ہمارے پرانے خرانٹ قسم کے سیاستدان بھی ہیں جو اِن نومولودوں کی بھڑکیوں اور اِن کی طرح طرح کی فرمائشوں کے بعد حالات کے نشیب وفراز کا مسلسل جائزہ لے رہے ہیں اور اپنے تمام ذاتی و سیاسی اختلافات کو بھلا کر متحدو منظم ہوگئے ہیں اور اپنی دانش اور فہم سے اِن نومولودوں کویہ سمجھا نے کی بھی کوششیں کر رہے ہیں کہ الیکشن اور جمہوریت کی صحیح تشریح یہ نہیں ہے۔

جو یہ نئے جوشیلے سیاستدان کررہے ہیں اِس پر ، پرانوں کا یہ کہنا ہے کہ اگر الیکشن سے متعلق اِن کی پیش کردہ تھیوری اور مطالبات پر عمل کر لیا گیا تو پھر الیکشن اور جمہوریت کے ایسے نتائج نہیں نکل پائیں گے کہ جیسے گزشتہ 65 یا66 سالوں سے ہمارے یہاں سامنے آتے رہے ہیں اَب اتنی سی بات ہمارے ملک کے پرانے برسرِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کے سیاستدان اپنی ملکی سیاست میں قدم رنجا فرمانے والے نئے سیاستدانوں کو سمجھانا چاہ رہے ہیں کہ ہمارے یہاں مدتوں سے( سیاستدانوں ، اُمیدواروں اور عوام اور ووٹر کے نزدیک) الیکشن کی تشریح اور تعریف بقول شاعر یہ ہے کہ:-
الیکشن نام ہے جس کا وہ خدمت ہے عبادت ہے ہمارا ووٹ کیا ہے ملک و ملت کی امانت ہے
مگر جب جائزہ اِس کا لیا تو یہ ہواثابت الیکش قوم کی خدمت نہیں ہے اِک تجارت ہے
اور اِسی طرح بقولِ شاعر ہر بار عوام کی نظر میں الیکشن کی صرف اتنی ہی اہمیت رہی ہے کہ:
ووٹ دینے کا دِلانے کا زمانہ آگیا دعوتیں کھانے، کِھلانے کا زمانہ آگیا
ہر طرف پیسہ چلانے کا زمانہ آگیا کالے دھن کو اَب لُٹانے کا زمانہ آگیا

PMLN

PMLN

بہر حال ..!چلیں چھوڑیں اِن باتوں کو اَب میں آتاہوں اپنے اصل موضوع کی طرف گزشتہ دنوں جب ایک طرف پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں محمد نواز شریف ہالا بائی پاس پرساندان کے قریب جلسہ سے خطاب اور مسلم لیگ بلوچستان کے صدر چیف آف جھالاوان نواب ثناء زہری سے ٹیلی فون پر گفتگو کر رہے تھے تو اِس دوران اُنہوں نے جتنی بھی نئی پرانی اور رٹی رٹائی باتیں کیں آج اِن سے ساڑھے اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں کی (مجھ سمیت اِن کے مخالفین کے علاوہ )اکثریت ضرور متفق ہوگی۔

جبکہ اِن دونوں مواقعوں پر میاں نواز شریف کا کہنا تھا کہ”یہ حقیقت توسب ہی جانتے ہیں کہ حکومت چنددنوں کی مہمان ہے اور وہ دن کوئی زیادہ دور نہیں جب ساڑھے اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں کی اِس ظالم حکومت سے جان چھوٹ جائے گی اور اِسی طرح اِن کا کہنا تھا کہ” الیکشن بھی سر پر ہیں اگر آئندہ الیکشن میں درست ٹھپہ لگاتو ملک کا مستقبل سنور جائے گا ”یہ خواہش تو آج ہر محب وطن پاکستانی کی ہے کہ الیکشن صاف و شفاف ہوں اور ملک میں مخلص اور دیانت دار نئی قیادت آئے اور عوامی مسائل حل کرے اور ملک کو ترق و خوشحالی کی راہ پر گامزن کرے تو کتنا اچھا ہو جائے اور نواز شریف نے کہاکہ ” نگراں حکومتوں کے قیام میں کسی کو مُک مُکا نہیں کرنے دیں گے” یہی بات اور مطالبہ تو وہ لوگ بھی کر رہے ہیں جناب ..!جنہیں آپ بیرونِ ملک سے آئے ہوئے مداری اور سرکس لگانے والے کہہ رہے ہیں میاں صاحب کا کہناہے کہ” چند ہزار لوگوں کو ساڑھے اٹھارہ کروڑ عوام پر حاوی ہونے دیں گے اور نہ اِن کے ناجائز مطالبات مانیں گے”۔

Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

تو میاں صاحب جب آپ چند ہزار افراد کو ملک کی ساڑھے اٹھارہ کڑور عوام پر حاوی ہونے پر تلملا اُٹھے ہیں تو ذرایہ بھی توسوچیںا ور انصاف کریں کے بیچارے یہ معصوم غریب عوام ہیں کہ جنہوں نے ملک کے چند خاندانوں کے اُن چندسو افراد کو بھی تو 65/66 سالوں سے برداشت کیا ہواہے یہ سب کیا ہے..؟ جو ہمارے ایوانوں پر قابض ہیں اور ملک کے ساڑھے اٹھارہ کڑور عوام کی قسمت کا فیصلہ یک مُشت کر کے اِنہیں مسائل کی چکی میں پیسنے کا بندوبست کر دیتے ہیں اِس پر آپ کی کوئی مذمت کیوں نہیں آتی ہے اور آج آپ کہہ رہے ہیں کہ ہم چند ہزار افراد(دھرنیوں ) کو ملک کی ساڑھے اٹھارہ کڑور عوام پر حاوی نہیں ہونے دیں گے بھلا یہ کہاں کا تضاد ہے..؟ کہ نصب صدی سے زائد عرصے سے ایوانوں پر قابض رہنے والے خاندانوں کے چند سو افراد اپنے فیصلوں سے کڑورں لوگوں کی زندگیوں کا ستیا ناس تو کریں مگر جب بقول آپ کے چند ہزار افراد اپنے حقوق کے حصول اور ملک کی حقیقی ترقی وترقی اور خوشحالی کے خاطر آواز بلند کر رہے ہیں تو اِس پر آپ سمیت دوسروں کے پیٹوں میں مڑوڑ اٹھ رہے ہیں۔

سوچیں اگر پچھلے 65/66 سے آ پ اور آپ جیسے دوسروں نے عوام کو اِن کے بنیادی حقوق گیس ، پانی وبجلی، خوراک، تعلیم، علاج و معالجہ اوربہترین سفری سہولیات مہیاکی ہوتیںاور اِنہیں دہشت گردی ، مہنگائی ،بھوک وافلاس، قتل وغارت گری، کرپشن اور اقرباء پروری سمیت بہت سی غیر اخلاقی بُرائیوں سے نجات دلائی ہوتی تو یقین پھر کوئی بھی پاکستانی کسی بیرونِ مداری اور سرکس لگانے والے کے پیچھے ہرگزنہ چل پڑتا۔ مگر افسوس ہے کہ آپ اور آپ جیسوں نے عوام کو تو اپنے سیاسی اور ذاتی مفادات کے خاطر سوائے استعمال کرنے اور اِنہیں بے وقوف بنانے کے کچھ کیاہی کیاہے..؟ میاں صاحب کایہ سب کہنا بیشک درست ہے کہ کراچی میں روز لاشیں گر رہی ہیں اور حکومت کسی مجر م کو نہیں پکڑ رہی ہے حکومت نے مسائل کے دلدل میں دھنسے عوام کو پانچ سالوں میں مہنگائی ، بیروزگاری اور قتل وغارت کے سوا کیا دیا ہے، سندھ میں نوکریاں اپنے جیالوں اور اپنے اتحادیوں کوتو دی جارہی ہیں مگر عام آدمی سے نوکری کے لئے رشوت لی جا رہی ہے۔

اِس پر میرا خیال یہ ہے آج کم ازکم نواز شریف کی اِن باتوں سے تو کوئی مجبور اور مفلوک الحال پاکستانی انکار نہیں کرے گا کہ ہماری اِس سر سے پیر تک جمہوری لبادے میں لپٹی حکومت میں ایسا ضرور ہو رہا ہے جیسا میاں محمد نواز شریف فرما رہے ہیں اَب اگر ایسانہیں ہے تو حکومت کو چاہئے کہ وہ میاں صاحب کی اِس بات کا فوراََ جواب دے مگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ حکومت کے پاس میاں صاحب کی اِن باتوں کا کوئی جواب نہیں ہو گا کیوں کہ یہ ایساہی کر رہی ہے جیسا میاں صاحب فرما رہے ہیں مگر اِن تمام باتوں کے باوجود مجھے میاں نواز شریف کی اِس بات سے کھلا اختلاف ہے کہ وہ یہ کیوں کہہ رہے ہیں کہ”انہیں اقتدار کا شوق نہیں ہے (جبکہ ملک کے ساڑے اٹھارہ کڑور عوام یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اِنہیں اقتدار کا ایسا ہی شوق ہے جیسے ماہی بے آب کا سمندر میں جانے کے لئے ہوتا ہے ) اور اِن کا یہ بھی کہنا ہے کہ ”میں ملک کو مشکلات سے نکالنا چاہتا ہوں”۔

Dr Tahir Ul Qadri

Dr Tahir Ul Qadri

تو اِن کی اِس بات پر میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ یہی بات تو تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری بھی 23 دسمبر 2012 سے اپنے دھرنے کے آخری روز یعنی 17 جنوری 2013 تک اپنے ہونے والے جوشیلے اور دھرنیوں کو گرما دینے والے خطابات اور مذاکراتی عمل اور معاہدے کی شرائط اور مطالبات میں بھی تو کہتے رہے ہیں مگر آج علامہ کی اِس بات پر حکومت اور آپ کا یہ کیوں کہنا ہے کہ اگر طاہر القادری ملک میں کوئی تبدیلی لانا اور عوام کے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں تو اِنہیں الیکشن میں حصہ لے کرملکی سیاست اور اقتدار کی دوڑ میں شامل ہونا پڑے گا جب تک یہ ایسا نہیں کرتے ہیں تو اِنہیں کوئی حق نہیں کہ یہ ملک میں کسی تبدیلی اور عوام کے مسائل کے حل کی باتیں کریں میرے یہی آخری جملے آپ کے لئے بھی ہیں اگرآپ ملک اور قوم کے لئے واقعی کچھ کرناچاہتے ہیں تو آپ کو بھی یہ چاہئے کہ آپ پہلے اپنے اِس مشورے پر خود عمل کریں جو آپ علامہ کو دے رہے ہیں۔

تحریر : محمداعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com