آئینے

Iran Flag

Iran Flag

کہتے ہیں۔ شاہ ایران ہرمز تخت پر بیٹھا تو اس نے اپنے باپ کے زمانے کے وزیروں کوقید کر دیا۔ یہ صورتحال دیکھ کر بادشاہ کے معتمعدخاص نے پوچھا کہ : آپ نے ایسا کیوں کیا؟ بظاہر تو ان کی کوئی خطا نہ تھی؟ ہرمز نے جواب دیا: بے شک ان میں سے کسی نے بھی ایسا کام نہیں کیا کہ اس جرم قرار دے دیا جائے۔ لیکن میں نے یہ بات محسوس کی کہ وہ مجھ سے بہت خوف کھاتے تھے۔ اور میں جو کچھ کہتا تھا اس پے پوری طرح یقین نہ کرتے تھے۔ میں نے ان کی اس حالت کو اپنے لیئے خطرہ قرار دیا گمان گزرا کہ کہیں یہ مل کر میرے قتل پہ آمادہ نہ ہو جائیں۔ چنانچہ میں فوراً دانشمندوں کے اس اصول پے عمل کیا کہ جو تجھ سے ڈرتا ہے تو بھی اس سے خوف کھا۔

حضرت سعدی نے اس حکایت میں سیاست کا ایک اہم اصول بیان کیا ہے۔
حکمران کیلئے یہ بات بہت ضروری ہے کہ وہ صرف ان لوگوں کو معتمعد بنائے جو اس سے محبت رکھتے ہوں۔ یہ نظریہ بہت ناقص ہے۔ رعب میں رہنے والے اور ہاں میں ہاں ملانے والے لوگ زیادہ مفید ثابت ہوتے ہیں۔ بے شک ایسے لوگ اپنی ریا کارانہ اطلاعت شعاری اور مدح سرائی کے باعث حکومت اور سرکار کی آنکھ کا تارا ہوتے ہیں۔ مگر ان کی فطرت میں سانپ کی سی چالاکی ہے جیسے ہی موقع پاتے ہیں اپنی اہانت کا بدلہ لینے پے آمادہ ہو جاتے ہیں۔ ہم ایسے سانپوں کو خود اپنی آستینوں میں پالتے ہیں اور دود پلاتے ہیں۔

بات ہو رہی تھی ان لوگوں کی جو شاہ سے ڈرتے ہیں تو شاہ کو بھی ان سے خوف کھانے کی ضرورت ہے ۔ اس میں بہت گہری حقیقت ہے کیونکہ جب خوف حد سے بڑھ جاتا ہے تو بے خوفی جنم لیتی ہے اور جب بے خوفی جنم لے لے تو انسان بڑی سے بڑی مصیبت سے آنکھیں بند کرکے ٹکرا جاتا ہے۔ تب وہ لمحہ ہوتا ہے جب راہ میں آنے والی ہر شئے پاش پاش ہو جاتی ہے۔ اس ساری تمہید کا مقصد یہ ہے کہ عوام کے حالات اور ذہن بھی یہی رخ اختیار کرتے جارہے ہیں۔ حکومت کی عوام کی بھلائی کے معاملات میں بے رخی اختیار اور ان کو انکی ضروریات زندگی سے محروم رکھنے کا ہی نتیجہ ہے کہ روز بروز بڑھتی مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ ہڑتالوں نے ذخیرہ اندوزوں کے دونوں ہاتھ تیل میں اور سر کڑاہی میں والی صورتحال کر دی ہے۔ آئے دن تیل پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے نے غریب عوام کا جینا دو بھر کر دیا۔ کیا پاکستانی قوم کو عوامی نمائندوں کو ووٹ دینکی یہ سزا ہے کہ ان پہ ضروریات زندگی کا ناطقہ بند کر دیا جائے؟ کیا ان کے اعتماد کا صلحہ یہی ہے کہ کبھی کوئی والدین غریب کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنی ہی اولاد کا گلا گھونٹ دیں۔ یا پھر خود کشی کر لیں۔

Miroir

Miroir

ملک کا مستقبل ، اقبال کے شاہین، بیروزگاری کے ہاتھوں شکست خوردہ زندگی کو سڑکوں پر گھسیٹے رہیں یا پھر کسی دن تنگ آ کر ان تمام ڈگریوں کو آگ لگا دیں۔ اور خود بھی کسی گندی گلی یا کونوں گھدروں یا پارکوں میں زندہ لاشوں کی صورت میں نشے میں گم ہو جائیں۔ کون ذمہ دار ہے اس کا؟ کیا حکومت ؟ یا ہم خود جنہوں نے ووٹ دے کر ان کو تخت پہ بٹھایا۔ اور اس کے بعد ہمارے حصے میں تخت دار آتا ہے۔

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے

کیف مراد آبادی نے کیا خوب کہا کہ

بقا کی فکر کرو خود ہی زندگی کیلئے
زمانہ کچھ نہیں کرتا کبھی کسی کیلئے

ہم تو خوابوں کے بیوپاری ہے اور ہر آنے والے کے ساتھ اپنی کامیابی منسلک کر لیتے ہیں۔ اور جب ہمارے خواب چکنا چور ہو جاتے ہیں تو ہم بے بسی کا اشتہار بن جاتے ہیں ۔ میں کبھی کبھی سوچا کرتی ہوں کہ کیا ہم میں اتحاد نہیں؟ ہم کیوں مقابلہ نہیں کرتے؟ آخر کیوں ہم ڈٹ کر کھڑے نہیں ہو جاتے؟ کیا ہم کمروز ہیں؟ مگر تاریخ نے ثابت کیا کہ عوامی اتحاد نے بڑے بڑے طوفانوں کا مقابلہ کیا۔ فیصلے تک بدل ڈالے پھر مایوسی اور سکوت کیوں؟ کیا ہم کسی سے خوف زدہ ہیں؟ کیا ان سے جو خود ہم سے خوفزدہ ہیں؟ جو روز ہماری لوح زندگی پہ ایک نئے ظلم کو مسلط کر دیتے ہیں۔ کبھی جعلی ادویات۔ کبھی بیروزگاری۔ کبھی بجلی۔ گیس کی لوڈشیڈنگ۔ زندگی تو بے ثبات شے ہے ہی مگر اب تو بلکل بھروسہ بن گئی ہے۔ صبح گھر سے نکلنے والا دوبارہ زندہ گھر لوٹے گا یا نہیں کو ئی ضمانت نہیں۔ میرا شہر عروس جو کبھی روشنیوں سے جگمگاتا تھا اب وہاں لہو کے چراغ جلتے ہیں شہر ویران اور قبرستان آباد ہیں۔ ہم بے بس ۔ حکومت بے بس۔ کیا ارباب اختیار کو کسی کی زندگی کی قدر و قیمت کا اندازہ نہیں۔ انسانی خون پانی سے بھی ارزاں ہے۔ ذرا سوچیئے اپنی خامیوں اور خود ساختہ کمزوریوں پہ قابو پائیں۔ خود میں تبدیلی لائیں۔ نظام عدل اور امور سیاست و حکومت کے پودے کو حب الوطنی اور خلوص کا پانی دیں تاکہ پاکستان نام کا پودا پھر سے لہلہائے۔

تحریر۔ ڈاکٹر فوزیہ عفت

Dr Fouzia Iffat

Dr Fouzia Iffat