پاکستانی سیاست

Rohail Akbar

Rohail Akbar

چھوٹی خرابیاں بڑی بڑی غلطیوں کو جنم دیتی ہیں اوربڑوں کی بڑی غلطیاں قوم کو تباہ برباد کردیتی ہیں بلک ایسے ہی جیسے آجکل ہمارے حکمرانوں نے آئین کو بازیچۂ اطفال بنا رکھاہے وہ آئینی شقوں کی من مانی تاویلیں کرتے ہیں عدالت نے اپنے فیصلے میں صدر کو دو عہدوں میں سے ایک عہدہ رکھنے کا حکم دیا لیکن اس پرعمل نہیں کیا گیا ۔ وزیر اطلاعات فرماتے ہیں کہ صدر کا عہدہ سیاسی ہے اس نے سیاست ہی کرنی ہے جبکہ آئین کہتاہے کہ صدر وفاق کی علامت ہوتاہے وہ کسی پارٹی کا سربراہ نہیں بن سکتا۔ ایوان صدر کو پیپلز پارٹی نے اپنا مرکز بنا رکھا پیپلزپارٹی نے ہمیشہ اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوںکو ماننے سے انکار ہی کیا ہے جب تک ملک میں عدلیہ کا احترام نہیں ہو گا اور آئین و قانون کی حکمرانی نہیں ہوگی اس وقت تک ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن نہیں ہوسکتا بلوچستان کے اختر مینگل اور طلا ل بگٹی قومی میڈیا کے سامنے بار بار اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ صوبے میں علیحدگی کی کوئی تحریک نہیں لیکن امریکہ اور امریکہ نواز حکمران بلوچستان کو تہس نہس کرنے پر تلے ہوئے ہیں وفاق میں بیٹھے ہوئے لوگ صوبے کے حالات کو سدھارنے کی بجائے اس میں مزید خرابی کا باعث بن رہے ہیں اور بلوچستان کو علیحدگی کے راستے پر ڈالنا چاہتے ہیں ایک زرداری ایوان صدر میں بیٹھا ہواہے اور دوسرا اپنی باری کے انتظار میں ہے۔ ملک کے حالات انہی کی وجہ سے خراب ہوئے ہیں ، اگر قوم نے اپنے ووٹ کے رویے کو نہ بدلا تو مسائل کی دلدل مزید گہری ہو تی جائے گی ۔ امریکہ نے بار بار شمالی وزیرستان میں ملٹری آپریشن کے لیے دبائو ڈالا اور پاکستان کے دورے کرنے والے ہر امریکی اہلکار نے اپریشن کی رٹ لگا رکھی تھی لیکن جب اس میں وہ کامیاب نہ ہوا تو ملالہ پر حملہ ہوگیا ۔ اب اسے شمالی وزیرستان پر حملے کے لیے بنیاد بنایا جارہاہے لوگ اس بات پر ہکابکا رہ گئے کہ ایک بچی کے زخمی ہونے پر اوباما اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سمیت جگہ جگہ سے مذمتی بیانات آنے شروع ہو گئے۔

پوری مغربی دنیا سراپا احتجاج بن گئی۔ آرمی ہیلی کاپٹر مل گئے اور ایمبولینس کا انتظام ہو گیا جس سے زخمی بچی کو اٹھا کر بیرون ملک علاج کے لیے آناً فاناً پہنچا دیا گیا جب کہ ڈرون حملوں میں ہزاروں لوگ جن میں معصوم شیر خوار بچے بچیاں شامل ہیں امریکہ ان کے جسموں کے چیتھڑے اڑا چکاہے ۔آخر ایک بچی کے زخمی ہونے پر ان میں اتنی ہمدردی کہاں سے آگئی کیا یہ ساری سازش شمالی وزیرستان میں ملٹری آپریشن کی راہ ہموار کرنے کے لیے تو نہیں ہے اب قوم کے اندر آہستہ آہستہ شعور پیدا ہورہا ہے ۔ حکمرانوں نے ساڑھے چار سالوں میں 8500 ارب کی کرپشن کی اور روزانہ پاکستان میں 8 سے 9 ارب کی کرپشن ہورہی ہے ۔ اس کرپشن کی وجہ سے قومی ادارے بھی عوام کو لوٹنے میں لگ گئے ہیں اور اب تک ریلوے ، پی آئی اے اور واپڈا کو رواں رکھنے کے لیے 400 ارب قومی خزانے سے ڈکارے جاچکے ہیں ۔ تیل کی مد میں 44ارب کی کرپشن کی گئی ہے ۔ان سب خامیوں ،کمزوریوں،نادانیوں،غلطیوں اور کرپشن کو ختم کرنے کیلیے قانون کی ضرورت ہوتی ہے، قانون موجود ہے مگر اس پر عمل نہیں ہو رہا ، امن ہمیشہ انصاف سے آتا ہے،پاکستان میں کرپشن سمیت کسی معاملے کاکوئی احتساب نہیں کیا جارہا موجودہ حالات میں عوامی مسائل بڑھ رہے ہیں توانائی بحران پر قابو پانے کیلئے طویل المدتی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے اس وقت ملک میں ہر طرف بدامنی اور خوف وہراس کی فضاء قائم ہے مگر حکمرانوں کو اپنی عیاشیوں سے فرصت نہیں ملتی، ملک میں گورننس کو بہترکرنے کی ضرورت ہے اصغرخان کیس کا فیصلہ عدالتی و سیاسی تاریخ میں سنگ میل ثابت ہوسکتا ہے۔

Pakistan

Pakistan

اگرحکومت سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے پر عملدرآمد کرے اب گیند حکومتی کورٹ میں ہے اصغر خان کیس کے فیصلے سے جمہوری نظام کے خلاف محلاتی سازشیں اور ماورائے آئین مہم جوئی کا خاتمہ ہو گا جبکہ چوہدری نثار علی خان نے سپریم کورٹ کی طرف سے اصغر خان کیس کو من و عن قبول کرتے ہوئے بھرپو ر تعاون کی یقین دھانی بھی کروائی اور اصغر خان کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے خود مختار کمیشن تشکیل دیے جانے کا مطالبہ کرتے ہوئے اس کیس میں سیاستدانوں سے ایف آئی اے کی تحقیقات کو ناقابل قبول قرار د یا ہے ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ متحدہ مجلس عمل کی تشکیل نو سے باہر رکھی جانے والی جماعت اسلامی نے ایک بار پھر زرادری اور آرمی چیف کو متنبہ کرتے ہو ئے کہا ہے کہ ملک میں اب کوئی ملٹری آپریشن کیا گیا تو انتشار اور انارگی پورے ملک کو گھیرے میں لے لے گی جس کو کنٹرول کرنا کسی کے بس میں نہیں ہو گا، امریکہ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے سازشوں کے مسلسل جال بچھا رہا ہے ، وہ بلوچستان میں امن قائم رہنے دینا چاہتا ہے نہ ہی کراچی کی صورتحال کو بہتری کی طرف جانے دیتاہے جبکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جماعت اسلامی کو دینی جماعتوں کے اتحاد سے دور رکھ کر ایم ایم اے کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔

تحریر : روہیل اکبر