تلخیاں ۔ فوزیہ عفت عفی

مسافروں سے کہو رات سے شکست نہ کھائیں
میں لا رہا ہوں خود اپنے لہو سے بھر کے چراغ

دانشوروں کا کہنا ہے کہ دنیا میں وہ قومیں اور ملک زوال پذیر ہو جاتے ہیں جواپنے بحرانوں اورتجربوں سے سبق نہیں سیکھتے۔ تاریخ گواہ ہے کہ قوموں کو ایک ایک قدم پھونک پھونک کے اٹھا نا چاہیے اور انہیں ایک ہزار سال کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔

Mistakes - Oops

Mistakes – Oops

حیاتیات کا یہ فلسفہ بلکل درست ھے کہ قوموں کے پاس غلطی کی گنجائش نہیں ہوتی۔ مگر کیا بات ہے ھمارے حکمرانوں کی جو غلطیوں پہ غلطیاں کرتے ہیں ۔مثال کے طور پہ بجلی کے بحران کو ہی لیں، پاکستان میں بجلی کا سب سے بڑا بحران ١٩٩٤ میں پیدا ہوا۔ حکومت نے غیر ملکی کمپنیوں کو بجلی کی صنعت میں سرمایہ کاری کی دعوت دی اور نتیجہ یہ ہوا کہ ١٩٩٦ میں نہ صرف بحران ختم ھو گیابلکہ پاکستان کے پاس زائد بجلی بھی آگئی۔یہ سلسلہ ٢٠٠٠ تک چلا۔پھر اچانک حکومت کو پتہ چلا کہ بجلی کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے۔اگر اب پیداوار میں اضافہ نہ ہوا تو ملک میں بجلی کا بحران پیدا ہو جائے گا۔

لہذا تھرمل پاورپلانٹس لگانے کی پالیسی بنائی گئی۔ مگر اس پہ عمل نہ ہو سکا کیونکہ حکومت نے اس شعبے میں سرمایہ کاری نہیں کی لہذا لوڈشیڈنگ کی ابتدا ہو گئی۔ بجلی کی بچت تو ہوئی مگر معشیت کو دس کھرب کا نقصان پہنچا اور اقتصادی بحران کا اژدہا منہ کھولے آ موجود ہوا۔ الغرض بجلی کے بحران نے ھمیں اس قدر نقصان پہنچایا کہ اگر اب ہم دن رات پاور پلانٹس لگائیں تب جا کر دو تین برسوں میں ہماری ضرورت پوری ہو گی۔ ہر سرزمین کو قدرت نے کسی نہ کسی نعمت سے نوازا ہے ہماراشمار بھی ان ممالک میں ہوتا ہے،ہم خوش قسمت ہیں کہ پاکستان کا نہری اور آبپاشی کا نظام بہت منظم اور مربوط قسم کا عطا کردہ ہے۔

بجلی کی کل پیداوار ٤٥٤،١١ میگاواٹ ہے۔ جبکہ صارفین کی تعداد ٣.١٤ ملین ہے، اگر ہم اپنے آبی وسائل کو بروئے کار لائیںتو چین کی مدد سے ہائیڈل پاورجنریشن میں خود کفیل ہو جائیں گے کیونکہ صرف آزاد کشمیر میں ٨٠٠٠ میگا واٹ بجلی تیار کرنے کی سہولت موجود ہے۔

Hydroplant Animate

Hydroplant Animate

پانی سے پیدا ہونے والی بجلی نہایت سستی ہے۔ملک میں بجلی کی ضرورت ٧ فیصد سالانہ بڑھ رہی ہے۔ اور یہ صرف آبی ذخائر سے ہی پوری ہو سکتی ہے۔ اس سے ہم صنعتوں کارخانوں اور بڑے پیداواری پلانٹس کو سستی بجلی فراہم کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ درآمدات کے زرمبادلہ پر اٹھنے والے بھاری اخراجات سے نجات مل سکتی ہے ،پانی کے ذخائر ملکی معشیت کے لئیے ریڑھ کی ھڈی کی حیثیت رکھتے ہیں بھارت میں١٢ ڈیم دریائے چناب سے نکلنے والی نہروں اور نالوں پہ تعمیر ہو رہے ہیں اور ٤٠ ڈیم دریائے جہلم پر بن رہے ہیں۔ جبکہ ہم ان سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتے۔

پن بجلی کو فروغ دینے سے نہ صرف زراعت و صنعت کو ترقی ملے گی بلکہ عوام کو لوڈشیڈنگ سے بھی نجات ملے گی۔

تحریر۔ فوزیہ عفت عفی
fouziaiffat@yahoo.com.