پنجاب یونیورسٹی میں لسانی تعصب کا خدشہ

Punjab University

Punjab University

پنجاب یونیورسٹی ملک کی سب سے قدیم اور بڑی جامعہ ہے کچھ برس کے امن کے بعد گزشتہ چند ماہ سے یہاں تشدد کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہورہا تاہم گزشتہ چند روز سے یونیورسٹی میں جاری کشیدگی میں لسانی اور صوبائی رنگ بھی غالب دکھائی دیا

کمپیس میں ہنگامہ آرائی اور تشدد کے واقعات شروع چھ ماہ پہلے اسلامی جمعیت طلبہ کے ایک کارکن کے قتل سے ہوئے طلبہ تنظیم نے اس قتل کو یونیورسٹی انتظامیہ سے منسوب کیا تو انتظامیہ اسے جمعیت کے کارکنوں کی باہمی چپقلش کا نتیجہ قرار دیتی رہی

تاہم اس واقعے کے بعد صرف یونیورسٹی نہیں بلکہ شہر بھر میں توڑ پھوڑ اور ہنگامہ آرائی ہوئی اساتذہ کو مارا پیٹا گیا سڑکیں بلاک ہوئیں بسیں نذر آتش کی گئیں اور یہاں تک کہ علاقے کے ایس پی کو کمرے میں بند کرکے تشدد کا نشانہ بنایا گیا

پنجاب یونیورسٹی کے رجسٹرار اورنگزیب عالمگیر کہتے ہیں اگر یونیورسٹی میں فراش سے لیکر وائس چانسلر تک ایک خاص سیاسی جماعت سے بھرتی کیے جائیں اور لوگوں کو سانس لینے کی اجازت بھی نہ ہو تو اس کی مرضی کے بغیر پتا بھی نہیں ہل سکتا

یہ واقعات لاہور کے تمام حلقوں کے لیے نئے نہیں تاہم گزشتہ چند روز سے پنجاب یونیورسٹی میں ایک اور ہی طرح کا جھگڑا سامنے آیا ہے جو جمعیت اور یونیورسٹی انتظامیہ کے مابین نہیں بلکہ جمعیت بلوچی اور پشتوں طلبہ کے مابین ہوا

بات شروع ہوئی ایک ٹی پارٹی سے جس کا بندوبست پشتون طلبہ نے یونیورسٹی میں خصوصی کوٹے پر آنے والے نئے بلوچی طلبہ کے لیے کیا جمعیت سے تعلق رکھنے والے طلبہ نے مبینہ طور پر اسے روکنے کی کوشیش کی ہوسٹل کی کنٹین کو بند کروایا اور توڑپھوڑ کی

اس واقعے کے بعد یونیورسٹی کا ماحول کشیدہ ہوگیا دونوں جانب سے ایک دوسرے پر حملے کا الزام لگایا گیا طلبہ کو یرغمال بنایا گیا یونیورسٹی کے سٹیٹ افسر کو مارا پیٹا گیا اور ہوسٹل میں کمروں کو آگ لگائی گئی

اسلامی جمعیت طلبہ کی ایگزیکٹو کونسل کے رکن عبدالمقیت کہتے ہیں کہ صوبائیت کا نعرہ لگایا جارہا ہے اور لسانیت کی بنیاد پر یونیورسٹی کے ماحول کو خراب کرنے کی کوشیش کی جا رہی ہے پنجاب کیوزیراعلی نے جس بنیاد پر یہاں بلوچستان کا کوٹہ مقرر کیا وہ اچھی بات ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ وہ کس کے ہاتھوں میں استعمال ہو رہے ہیں وہ انتظامیہ کہ ہاتھوں میں استعمال ہو رہے ہیں کہ ایک ایسا گروپ بنایا جائے جو جمعیت کے خلاف استعمال ہو۔

حالیہ تشدد میں لسانیت اور صوبائیت کا پہلو تشویشناک ہے کیونکہ لاہور شہر میں لسانیت اور صوبائیت کے مسائل نہ ہونے کے برابر ہیں تاہم ملک کی سب سے بڑی جامعہ میں ہونے والے اس واقعے نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے

پشتون اور بلوچی طلبہ گزشتہ روز رات تک یونیورسٹی کی سڑک بند کرکے احتجاج کرتے رہے بعد میں جماعت اسلامی کے راہنما لیاقت بلوچ نے ان کی صلح کروانے کی کوشیش بھی کی لیکن پشتون اور بلوچی طلبہ کے نمائندے محمد ذکریا کے مطابق جب وہ مذاکرات کرکے لیاقت بلوچ کے گھر سے واپس آئے تو ہوسٹل میں ان کے کمرے کو آگ لگی ہوئی تھی

پشتون اور بلوچی طلبہ کی بڑی تعداد فی الحال کمپیس سے باہر ہیں۔ محمد ذکریا کہتیہیں کہ کلاشنکوف اور لڑائی تو ان کے آبائی علاقوں میں بھی موجود ہے لیکن وہ لڑنا نہیں بلکہ پڑھنا چاہتے ہیں یہ لوگ نہیں چاہتے کہ پشتون پڑھیں جمعیت کے لوگ سمجھتے ہیں کہ ہمارا تعلق کسی سیاسی جماعت سے ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔

یونیورسٹی انتظامیہ کے پاس اپنی سطح پر تشدد کو روکنے کے لیے زیادہ اختیارات موجود نہیں چند ماہ پہلے ہونے والے واقعات کے بعد کیمپس کے اندر ایک پولیس چوکی بھی قائم کی گئی تھی جس کا بظاہر کوئی فائدہ نہیں یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے کل بھی صوبائی حکام کو کیمپس میں جاری کشیدگی کی اطلاع دے دی گئی تھی تاہم ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا

یونیورسٹی کے رجسڑار اورنگزیب عالمگیر کہتے ہیں کہ جب محلے میں کوئی غنڈا یا بدمعاش ہوتا ہے تو لوگ اس کے سامنے دم نہیں مارتے اور اگر وہاں کوئی ایک اور آدمی ایسا آجائے جو اس کی دہشت کو چیلنج کرنے لگے تو پھر وہ ردعمل ظاہر کرنا فطری عمل ہے

تاہم پنجاب یوینورسٹی میں جاری حالیہ کشیدگی پر اگر جلد قابو نہ پایا گیا تو یہ ایک ایسی چنگاری ثابت ہوسکتی ہے جو جامعہ پنجاب اور لاہور کے امن کو ہی خطرے میں نہیں ڈالے گی بلکہ نفرت کا ایک اور ایسا بیج بو دے گی جس کی قیمت کچھ عرصہ بعد شاید پوری قوم کو ادا کرنا پڑے