پہلی درس گاہ

imtiaz ali shakir

imtiaz ali shakir

ماں تو بس ماں ہوتی ہے دنیا کا کوئی بھی رشتہ ماں کا متبادل نہیں ہوسکتا ۔ہمارے ہاں والدین کی بچوں سے محبت کی مثال کچھ یوں دی جاتی ہے۔ کہ اپنے بچے تے چڑیاں کانواں نو وی پیارے ہندے نیں۔یوں تو پرندے بھی اپنے بچوں کو زندہ رہنے کے لیے سب ہنر سکھاتے ہیں ۔والد بھی اپنے بچوں سے کم محبت نہیں کرتا۔ لیکن میں آج بات کرنے جا رہا ہوں انسانی ماں کی عظیم ہستی کے بارے میں۔ماں ایک ایسی ہستی ہے جس کی شان میں کچھ بھی کہنے یا لکھنے کی میری اوقات نہیں ۔ماں کی تعریف کرنے کے لیے علم کا سمندر بھی کم پڑ جاتا ہے۔اگر میں یوں کہوں تو بہتر ہوگا ۔کہ ماں وہ واحد رشتہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق سے محبت کی مثال دی ہے ۔اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو70 مائوں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے۔اس فرمان سے یہ بات بہت واضع ہو گئی کہ اللہ کے بعد ماں اپنے بچوں سے دنیا میں سب زیادہ محبت کرتی ہے۔ ایک مسلمان معاشرے میں ماں کی گود کوانسان کی پہلی درس گاہ ہو نے کا شرف حاصل ہے۔ ماں جس کے وجود کو خالق کائنات نے نئی زندگی کو تخلیق کرنے کے لیے چنا ۔انسانی ماںنو ماہ تک بچے کو اپنے وجود میں پالنے کے بعد ایک جان لیوا مرحلے سے گزر کرخالق کائنات کی تخلیق کو پورا کرتی ہے ۔جب انسان دنیا میں آتا ہے تو اپنے لیے کچھ بھی کرنے کے کابل نہیں ہوتا۔نہ کھانے پینے کا ہوش ۔نہ سردی گرمی کی پہچان ۔یہاں تک کہ بچے کا باتھ روم بھی ماں کی گود ہی ہوتا ہے ۔وہ ماں ہی ہے جو بغیر کسی لالچ کے بے لوث جذبے کے تحت ساری ،ساری رات جاگ کر اپنی صحت کا خیال کئے بغیر بچے کی صحت کا خیال رکھتی ہے اور خوشی محسوس کرتی ہے۔اسی لیے مسلمان معاشرے میں ماں کوبڑا مقام حاصل ہے۔ہمارے ہاںاکثر گاڑیوں کے شیشوں اورعمارتوں پہ تحریر لکھی ہوتی ہے۔یہ سب میری ماں کی دعا ہے۔یہ ایک جملہ ہم بڑے فخر سے لکھتے ہیں اس میں نہ تو کوئی دبائو ہوتا اور نہ ہی کوئی سیاسی مقصدحاصل ہوتا ہے۔ماں اپنے بچوںسے بہت محبت کرتی ہے ۔اوربے پناہ محبت میں یہ بھول جاتی ہے کے اولادکو دنیا میںسب جگہ ماں نہیں ملے گی ۔ماں اپنے بچے کو جتنی شفقت سے دیکھتی دنیا میںایسا کوئی رشتہ نہیں جس میں اتنی شفقت ہو۔

اسی لیے جب بچہ گھر سے باہر کی دنیا میںقدم رکھتا ہے تو پہلی منزل سکول یا مدرسہ ہوتی ہے جہاں وہ اپنی ماں کو ہر چہرے میں تلاش کرتا ہے ۔پھرجب نہیں پاتا تواسے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کسی غیر محفوظ مقام پر پہنچ گیا ہو۔وہ اپنے آپکوتنہاں پاتا ہے اور سکول جاتے ہوے ڈرتا ہے۔ اور پھر ماں کے لیے ایک اور امتحان شروع ہوجاتا ہے۔ ماں روزانہ بڑی مشکل سے سکول بیجھتی ہے۔ہر روز نیا بہلاوا ،اور اک نیا بہانہ بناکرسکول جانے کے لیے تیار کرتی ہے۔ سکول میں اساتذا بچے کو جو نصاب پڑھاتے ہیں وہ اس قدر شان دار ہوتا ہے جیسے فرشتوں نے ترتیب دیا ہو ۔انسایت کے سارے اصول اس میں شامل ہوتے ہیں ۔ سکول میں بچہ پہلے ہی دن سے ۔یہ دعا پڑنا شروع کردیتا ہے ۔لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری ۔زندگی شمع کی صورت ہو خدایامیری ۔دور دنیا کا میرے دم سے اندھرا ہو جاے۔ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جاے۔ یہ دعا پانچ سے چھ سال کے بچے کی سمجھ میں کم ہی آتی ہے ۔لیکن جب بچہ سمجھنا شروع کرتا ہے تواسے یوں محسوس ہوتا کے یہ دعا ہی سب سے بڑی مشل راہ ہے۔اورلب پہ اآتی ہے جو دعا وہی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہوتی ہے۔دوسروں کی زندگی کو روشن کرنے کے لیے خود شمع بنانے کے خیالات ، ماں کی شفقت ،اساتذہ کی رہنمائی،اور سچ اور حق پر مبنی نصاب ملتا ہے ے۔امانت۔دیانت۔تنظیم ۔اتحاد۔فرمان الہیٰ،عطات رسول۔ وطن سے محبت۔ فرمان قائد۔تصور اقبال۔ہمیشہ سچ بولو۔رشوت لینا اور دینا دنوں حرام ہیں۔حلال و حرام کی پہچان ۔کسی کو دھوکہ مت دو۔سود چاسلام میں حرام ہے۔جھوٹ کی سزا۔درگزر کرو۔صبر سے کام لو۔ تقریباً دنیا وآخرت کی سب اچھی باتیں ہمارے نصاب میں شامل ہوتیں ہیں ۔ جسے پڑھ کر بچہ آسانی سے ایک انسان بن سکتا ہے۔

جوں ،جوں بچہ پڑ ھتا لکھتا اور سمجھتا بھی ہے اور اس کے خیا لات میں پختگی آتی جاتی ہے اور وہ اپنے خیا لات کے تا نے با نے بھنتا شعور کی منزلوں سے گزرتا ہوا،اپنی تعلیم مکمل کرتا ہے تو اس کے پاس زندگی گزارنے کے لیے ماں کی محبت ،اساتذہ کی رہنمائی کے ساتھ ساتھ چند کاغذ یعنی اس کی ڈگریاں ہوتی ہیں ۔ ماں کی شفقت ماں کی دعا۔اساتذہ کی رہنمائی میں جو کچھ سیکھا ہوتا ہے تو اس کے لیے جو وہی ساری دنیا کی حقیت ہوتا ہے وہ اپنے آپکوایک سچا مسلمان ،اچھا انسان ثابت کرنے کی پوری صلاحیت رکھتا وہ بڑا پرجوش،نڈر،سچا، مخلص، ایماندار اور باصلاحیت ،باکردار ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے آپکو وہی نوجوان سمجھتا ہے جس کے بارے میں اقبال نے کہا ہے کہ محبت مجھے ان جوانوں سے ہے ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند،میرے ملک کا یہ نونہال بچہ اور میرے مستقبل کا سرمایہ اس دن پھراپنے آپ کواسکول کے پہلے دن کی طرح غیر محفوظ،ڈرا،سہمااور تذبذب کا شکارپاتا ہے تب وہ ایک بار پھر اپنے آپکو تنہا پاتا ہے جب وہ پرکٹکل لائف میں پہلا قدم رکھتا ہے جب ہاتھ میں ڈگری پکڑ کر کسی ملازمت کے حصول کے لیے نکلتا ہے تو اسے پتا چلتا ہے ملازمت کے لیے تعلیم نہیں بلکہ رشوت یاسفارش ضروری ہے، تب اسے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں جو نظام رائج ہے اس میں اس کی ڈگریاں سوائے ردی کے ٹکڑں کی اور کچھ نہیں اورجب اس کی سولہ،سترہ،برس کی محنت باسکٹ میں ڈال دی جاتی تو اس کے پاس دو راستے ہوتے ہیں یا تو اپنے اصولوں پرقائم رہے اور بھوکھا مرے یا اپنے اصولوں کوتوڑ کر اسی کرپٹ نظام کا حصہ بن جائے ۔اورپھر آخر کار ناچاہتے ہو ے بھی زندگی گزارنے کے لیے اسے سچائی،ایمانداری اور سارے اصولوں کو خیر باد کہنا ہی پڑھتا ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے پریکٹیکل اور تھیوری میں بہت زیادہ تضاد ہے جونصاب میں شامل ہے حقیقت میں وہ نظام دور ،دور تک نہیں ملتا۔

تحریر: امتیاز علی شاکر