کاروان نظام مصطفیٰ کو اسلام آباد داخل ہونے سے روک دیا گیا

گجرات : اسلامی قدار کے فروغ اور عریانی فحاشی ودیگر غیر اخلاقی اقدار کیخلاف گجرات تا اسلام آباد نکالے گئے ”کاروان نظام مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسلام آباد داخل ہونے سے رک دیا گیا۔ ہزاروں شرکاء کا وہیں دھرنا شروع، اگر آگے جانے کی اجازت نہ دی گئی تو رات تک یہیں دھرنا دینگے قائد کاروان پیر محمد افضل قادری کا اعلان، دھرنے کے دوران سابق وزیر اعظم چوہدری شجاعت حسین نے موقع پر پہنچ کر حکومت کے نام جاری کردہ یادداشت وصول کی اور عریانی فحاشی کے انسداد اور سکاف کے نفاذ کیلئے کردار ادا کرنے کا وعدہ کیا۔ اس سے قبل گجرات تا اسلام آباد ”کاروان نظام مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوران مختلف شہروں میں بڑے استقبالیہ جلسوں میں شریک ہزاروں غلامان رسول سے خطاب کرتے ہوئے قائد کاروان اور امیر عالمی تنظیم اہلسنت پیر محمد افضل قادری نے کہا ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا تھا فوری نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم  نافذ کیا جائے، مملکت خدا داد میں انڈیا اور یورپ کے غیر اسلامی کلچر کو فروغ دینے والے یاد رکھیں کہ وہ تحریک پاکستان کے شہیدوں سے غداری کررہے ہیں، یہ ملک نفاذ اسلام کیلئے بنایا گیا تھا لیکن آج یہاں اسلام کا اصل چہرہ نظر نہیں آتا جس کی وجہ سے قحط اور قہر الٰہی کا سامنا ہے، قوم کو اجتماعی توبہ اور پاکستان میں قرآن وسنت کی بالادستی کیلئے کردار ادا کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی اصل منزل اسلامی حکومت کا قیام اور نظام مصطفی کا نفاذ ہے۔ گجرات میں افتتاحی جلسہ سے سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحبزادہ فضل کریم، صاحبزادہ داؤد رضوی، مولانا ضیاء اللہ قادری، سابق صوبائی وزیر تعلیم میاں عمران مسعود، علامہ ابو تراب بلوچ، پیر تبسم بشیر اویسی، مولانا حنیف طاہر، مولانا شاہد چشتی مولانا اکبر نقشبندی ودیگر نے خطاب کیا۔ لالہ موسیٰ میں وزیر اطلاعات قمر الزمان کائرہ، سابق وزیر خزانہ تنویر اشرف، ڈاکٹر نور محمد دانش، نو لیگ کے رہنماء فرخ مجید اور دیگر علماء ومشائخ نے کاروان کا استقبال کیا جبکہ کھاریاں، سرائے عالمگیر، جہلم، گوجرخان، سوہاوہ، مندرہ روات، راولپنڈی میں علماء مشائخ اور مختلف دینی وسیاسی رہنماؤں اور کثیر عوام الناس نے کاروان کا پرتپاک استقبال کیا۔ کاروان نظام مصطفیٰ کے دوران فضا نعرہ تکبیر ورسالت اور ”ہر دُکھ کی دوا  ہے نظام مصطفی” کے نعروں سے گونجتی رہی۔ ان مواقع پر علماء نے درج ذیل قرار دادیں پیش کی گئیں جنہیں ہزاروں لوگوں نے ہاتھ اٹھا اٹھا کر منظور کیا، تعلیمی اور سرکاری وغیر سرکاری اداروں میں مسلم عورتوں کیلئے اسلامی لباس لازم قرار دیا جائے، مخلوط نظام تعلیم (کوایجوکیشن)کو ختم کرکے بالغ لڑکوں و لڑکیوں کیلئے علیحدہ علیحدہ نظام تعلیم قائم کیا جائے، غلط اشتہارات، کیبل، انٹرنیٹ سمیت ہر سطح پر عریانی فحاشی وبے حیائی کا خاتمہ کیا جائے، مرد حکمران غیر محرم عورتوں سے اور عورتیں غیر محرم مردوں سے ہاتھ ملانا بند کریں، مزاراتِ اولیاء سے بھنگی چرسی لوگوں کو ہٹایا جائے ، غیر شرعی رسوم کا خاتمہ کیا جائے اور مزاراتِ اولیاء کے پاس دینی مدارس اور تعلیمی ادارے قائم کرکے مسلمانوں کی دینی وروحانی تربیت کا انتظام کیا جائے، مقررین نے کہا کہ ہم حکمرانوں سے اُمید کرتے ہیں کہ وہ درج بالا و دیگر اسلامی اقدامات اٹھا کر پاکستان کی تاریخ میں شاندار باب رقم کر کے ثواب دارین حاصل کریں گے۔ صدر پاکستان کے نام یادداشت میں کہا گیا ہے کہ پاکستان ایک نظریاتی اسلامی مملکت ہے لیکن افسوس کہ ابھی تک اسلامیانِ پاکستان ،وطن عزیز کو نظام مصطفی کا گہوارہ نہیں بنا سکے بلکہ ایک طرف تو وطن عزیز کی غالب اکثریت کو دنیا وی زندگی کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے اور دوسری طرف الحاد لادینیت اور شرمناک وتباہ کن فحاشی وبے راہروی کی ترویج کر کے مسلمانوں کی آخرت بھی برباد کی جارہی ہے ۔ آپ کی پیپلز پارٹی نے ملک کو آئین دیا ہے جس میں ختم نبوت اور بعض دیگر اسلامی دفعات بھی موجود ہیں اور جمعہ کی چھٹی اور عالمی اسلامی سربراہی کانفرنس جیسے بڑے بڑے ملی کارنامے بھی انجام دیئے ہیں ۔ لہذا عالمی تنظیم اہلسنت نے مرکز اہلسنت نیک آباد گجرات تا اسلام آباد ملک کے ممتاز علماء ومشائخ کی ایک بڑی تعداد پر مشتمل تاریخی ” کاروان نظام مصطفی ” چلایا ہے یہ کاروان واضح کرتا ہے کہ اسلامیان پاکستان کی اصل منزل وطن عزیز میں اسلامی حکومت کا قیام اور نظام مصطفی کا عملی نفاذ ہے، لہذا آپ نفاذ اسلام کیلئے کردار ادا کریں اور سعادات دارین حاصل کریں۔ اس موقع پر سید مراد علی شاہ، علامہ ابو الحسنین، اسلم جنجوعہ، قاضی امیر حسین، خالد قادری، خدا بخش سعدی، سید عبد الغفار، مولانا یوسف، مولانا محمد بخش ہزاروی، شفیق الرحمن ہزاروی، مولانا علی اکبر، اجمل چشتی، مولانا نصر اللہ، سیف اللہ شاہ، صاحبزادہ نعیم اللہ، مولانا غلام ربانی، مولانا ضیاء الحسن اشرفی، مولانا غلام حسین سیالوی، علامہ راشد قادری، سید خلیل الرحمن، قاری محمدیوسف سیالوی، مولانا فضل رسول، علامہ عامر اسلم ساہی، عصمت اللہ چشتی، مفتی مختار نعیمی، مولانا کامران کلیامی، مولانا مشتاق، مولانا افضل، چوہدری زبیر، چوہدری میراں، سیف اللہ بھٹہ سیمت کئی رہنماء شریک ہوئے۔