کامیاب زندگی کا سفر

19 دسمبر آج ایک سال اور بیت گیا ہمارے خوبصورت ساتھ کو ـ شادی کی 26 ویں سالگرہ ہے ـ تمام بچے میرے گرد بیٹھے ہیں نواسہ بھی ہے نواسی بھی ہے ـ الحمد للہ

Successful Life

Successful Life

میری شاہانہ پرورش اور شاہانہ انداز سے سب خائف تھے کہ شادی کے بعد کیا ہو گا؟ تین بھائیوں کے بعد ڈیڈی جان کی بہت منتوں مرادوں سے مانگی ہوئی بیٹی “ملکاؤں کی ملکہ” میرے نام کا یہ مطلب ہے ـ یعنی شاہ بانو میر کی پیدائش ہوتی ہے اور ڈیڈی جان اپنے بیٹوں کو بھول جاتے ہیں بعد میں مزید دو بیٹے پیدا ہوتے ہیں ـ بیٹی کے ساتھ محبت کا انوکھا انداز گوجرانوالہ جیسے شہر میں آج بھی سب یاد کرتے ہیں ـ ہر بات کا خود خیال رکھنا جاب سے کئی کئی بار فون کرنا یورپ جانا تو ایک ماہ تک سکول نہیں جانا ـ رات 12 بجے سوئے ہوئے بیٹے کو اٹھا کر کہنا کہ اس نے کھانا نہیں کھایا جاؤ اور تکے بنوا کر لاؤ ناشتہ نہ کرنا تو سکول خود آکر اپنے ہاتھوں سے ناشتہ کروانا ایک چیز کئی اقسام کی خرید کر دینا کبھی مانگنے کی نوبت ہی نہ آنے دینا ـ بہترین لباس بہترین زیور سیر وتفریح ٹرپس پے بھیجنا تعلیمی سرگرمیوں میں آزادانہ حصہ لینے پے اصرار آج کی کامیاب شاہ بانو میر کی بنیاد ہے ـ

الحمد لِلہ میں آج اپنے والد کی روح کے آگے سرخرو ہوں ـ جن کے بے پناہ لاڈ پیار اور بے تحاشہ محبت سب کو یہ کہنے پے مجبور کرتی تھی کہ اس کو اتنا لاڈ پیار دے دیا ہے کہ اس کا شادی کے بعد بسنا نا ممکن ہے ـ مجھے میری زندگی نے یہ سکھایا ہے کہ بہت پیار جن کو ملتا ہے ـ زندگی کے ہر قدم پے وہ طاقت بن کر ان کی ذات کی کمزوریوں کو دور کر کے طاقتور شخصیت کو سامنےلاتا ہے ـ

شادی کے بعد کی زندگی گویا تجربات کی لیبارٹری ہے جہاں ہر گزرنے والا وقت لڑکی کو نئے سے نیا احساس نئی تربیت کا رخ دکھاتا ہے ـ ارادے میں استقامت ہو تربیت میں مضبوطی ہو تو کچھ ہی سال بعد وہ لڑکی اسی نامانوس ماحول میں اپنا الگ تشخص بنا چکی ہوتی ہے ـ اس کے بعد رب کریم اس کو اولاد جیسی نعمت سے نوازتا ہے ـ تو اسکی ذمہ داریوں میں مزید کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے ـ ان کی پرورش کرنا ان کیلیۓ سوچنا ان کی زندگی کو بہتر بنانے کی سعی کرنا یہ سب مسائل ایک سمجھدار عورت کیلیۓ چیلنج ہوتے ہیں جن سے وہ گھبراتی نہیں

زندگی کا ساتھی اگر آپ کی سوچ سے مطابقت رکھتا ہے تو زندگی کا حسن نکھر جاتا ہے ـ آپس کا اخلاص محبت ہر پریشانی ہر مصیبت کو کسی رد بلا کی طرح بہت دور پھینک دیتا ہے ـٌ

ایک عورت زندگی کا عمر کا سفر طے کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ آگے بڑہتی ہے ـ ذمہ داری اس کے وجود کو تھکا دیتی ہے سوچیں اس کے چہرے کو کمہلا دیتی ہیں لیکن وہ اس عمر کے بڑہتے ہوئے دور کو بھی بے خوف و خطر اسی شان سے گزارتی ہے جو کوئی با عزت خاتون گزارنا چاہتی ہے ـ

عورت اور طوائف میں یہی فرق ہے طوائف اپنے جسم کی دیکھ بھال کو ہر چیز پے فوقیت دیتی ہے ـ ڈھلتی عمر کو بے باک قہقہوں بیہودہ مذاق اور گھٹیا گفتگو سے بڑہتی ہوئی عمر کے ہر نقش کو میک اپ کی موٹی تہوں سے چھپا کر مردوں میں شمع محفل بن کر رہنا اسکی اولین خواہش ہوتی ہے ـ جب کہ ذمہ دار ماں بچوں کی ذات میں اپنی محنت بھر کر خود کو خوبصورت سمجھتی ہے ـ

وقت کے ساتھ ساتھ جب اپنے گرد موجود اپنے قیمتی رشتے نظر آتے ہیں تو کسی بھی خاتون کو فخر کا احساس ہوتا ہے کہ اس نے عمر بھر کی ریاضت کے بعد یہ ثمرات حاصل کئے ـ

آج میں اپنے گرد دیکھتی ہوں تو تو احساس ہو رہا ہے کہ اپنےمول کے ساتھ بیاج بھی موجود ہے نواسہ نواسی جو اپنے بچوں سے زیادہ اچھے لگ رہے ہیں ـ

اللہ کریم کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے ـ

شادی شدہ زندگی کی کامیابی صرف اور صرف صبر میں ہے برداشت میں ہے ـ خاموشی میں ہے ـ عدم برداشت اسی ہنستے بستے کو توڑ کر بد نصیب خاموشی کا مسکن بنا دیتی ہے ـ

مرد عورت گاری کے دو پہیے ہوتے ہیں ـ کہیں کہیں رفتار میں توازن کی کمی آتی ہے تو ایسے میں زیادہ ذمہ داری خاتونِ خانہ پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے گھر کو قائم رکھنے کیلئے کوشش مزید تیز کر دے ـ کئی معاملات ایسے ہوتے ہیں جس میں خاتونِ خانہ ذمہ دار نہیں ہوتی ـ

بد نصیبی سے کوئی آزمائش ایسی آجاتی ہے کہ وہ جتنی بھی کوشش کر لے مرد کو مطلوبہ ضروریات خاص طور پے اولاد جیسے ہتھیار کیلئے کیلیۓ بیدردی سے عورت کے وجود کی نفی کرنی پڑتی ہے ـ صرف اپنی مردانگی کی تسکین کیلیۓ ـ ایسے مرد کسی خاتون کو چھوڑنے سے پہلے کاش کچھ دیر رک کر اس کے بارے میں سوچ لیں کہ اس خاتون کی ذات کا شیرازہ کس بری طرح سے بکھرتا ہے ـ اس کے ساتھ اگر کوئی معصوم جان ہو تو وہ بچہ معاشرے میں کن گھمبیر مسائل کا شکار ہوتا ہے ـ اس کی شخصیت کیسے شکست و ریخت کا شکار ہوتی ہے ـ خواتین کیسے عدم تحفظ کا شکار ہوتی ہیں اور ان کو نفسیاتی معاشرتی کن کن خوفناک مسائل میں سے گزرنا پڑتا ہے ـ

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

اس درد کو اس اذیت کو اگر یہ بے حس لوگ محسوس کر لیں تو نہ صرف کئی گھر بچ سکتے ہیں بلکہ قدرتی طور پے کسی کمی پے صبر کیسے کیا جاتا ہے یہ رویہ بھی ہمارے درمیان بتدریج بڑھ سکتا ہے ـ

میں نے اپنی زندگی کے سفر میں صرف بطورِ خاتون ایک بات سیکھی ہے کہ یہ سفر کامیابی سے گزر سکتا ہے اگر خاتونِ خانہ بردبار ہو پختہ ذہن کی مالک ہو اور منہ پھٹ بد لحاظ نہ ہو یہ اوصاف کسی بھی عورت کیلئے خطرے کی علامت ہیں ـ

زندگی انسان ویسے ہی گزارتا ہے جیسے مالک تقدیر نے لکھا ہے ـ مگر اس میں رنگ بھرے جا سکتے ہیں خوبصورتی لائی جا سکتی ہے ـ اپنی کوشش سے اپنی محنت سے اور اپنے صبر سے ـ

جب آپ گھر کے نظام میں رہتے ہوئے بہترین انسان اپنے گرد جمع کر لیتے ہیں ـ دوست یا احباب کی صورت تو آپ کے لئے اداروں سے وابستہ تعلقات ثانوی حیثیت رکھتے ہیں ـ کئی جگہ یہ دیکھا گیا ہےکہ کہ اداروں سے وابستہ لوگ کاروباری مفادات کیلئے یا اپنے غلط رویے کی وجہ سے معاشرتی مضبوط تعلقات سے محروم ہوتے ہیں وہ چند لوگ آپس میں ہی دوست ہیں آپس میں ہی رشتے دار ہیں اور آپس میں ہی رقیب ہیں ـ

یہ مختصر ترین تعلقات کا پھیلاؤ ہے ـ

عام نارمل تقسیم یہ ہے کہ آپ کے گرد آپ کے بہترین دوستوں کا حلقہ ہو ـ آپ کے رشتے دوسرا حلقہ ہیں ـ جو آپ کے گرد ہونا چاہیے ـ تیسرا حلقہ آپ کے معاشرتی تعلقات کا جن کا تعلق عام پاکستانی سے ہو ـ یہ ہے کامیاب سیٹ اپ ہےـ

آج اپنے گرد اپنے بچوں کو بیٹھے دیکھ کر اور پھر اگلی نسل کی موجودگی مجھے بہت کچھ یاد کروا رہی ہےـ کیسے تنکا تنکا آشیانہ بنایا کیسے وقت گزرا کیسے تلخی ایام کو سہا ـ جس کا انعام آج 26 سالہ کامیاب رفاقت ہے ـ

کچھ عرصے سے فیس بک کلچر ڈیولپ ہو رہا ہے ـ ایسے لوگ جو پردیس میں تنہائی کا شکار ہیں جن کے گھر والے ان سے دور ہیں وہ اکیلے ہیں اور اداس ہیں ـ ڈپریشن سے بچنے کیلئے یہ سوشل میڈیا بہت مِؤثر ثابت ہو رہا ہے ـ جب وہاں موجود دیسی رویے نظر آتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس بین القوامی فورم کو بھی ہم نے اپنی متعصب اور چھوٹی سوچ کے ساتھ محدود کر کے اس کی افادیت کو شدید نقصان پہنچایا ہے ـ

میرا ذاتی تجربہ ہے کہ ہم لوگ ابھی بھی لحاظ خیال کر کے اپنے پرانے لوگوں سے ملتے ہیں ـ اس تیز رفتار دور میں فیس بک پے رشتے اور تعلق کانچ سے زیادہ نازک ہیں ـ پل بھر میں بد لحاظی اور بد تمیزی کا عالمگیر مظاہرہ دیکھا جا سکتا ہے ـ ایسی خواتین جو کسی بھی خاندان کی پہچان ہیں وہ خود سوالیہ نشان بن جاتی ہیں ـ

Facebook

Facebook

اپنے انداز ِ تحریر سے ـ یہی وہ عدم برداشت کے رویے ہیں جو آجکل فیس بک کو تو بسا رہے ہیں ـ گھر اجاڑ رہے ہیں ـ تعلیم کا حاصل کرنا اور پھر اس کے اندر موجود تہذیب کے عنصر کو ہی فراموش کر کے سر عام یوں خود کو بے باکی سے پیش کرنا بتاتا ہے کہ آپ معاشرتی کمزور حصار کی مالک ہیں ـ بھری ہوئی گاگر لے کر بہت احتیاط سے چلنا پڑتا ہے کہیں پانی چھلک نہ جائے ـ یہی حساب زندگی کی گاگر کا ہے ـ اگر آپ کے پاس رشتے ہیں دوست ہیں معاشرتی وسیع تعلقات ہیں تو آپ کو کسی قسم کی جوابی کاروائی کیلئے ہزار بار سوچنا پڑتا ہے کہ اس کا اثر آپ کے بچوں کے مستقبل پے نہ پڑے ـ لیکن جہاں زبان رکنے کا نام نہ لے اور گالیاں مغلطات بکی جائیں ـ ایسی خاتون کے ساتھ کون چاہے گا پاکیزہ رشتہ استوار کرنا ـ یہ سب لکھنے کا مقصد ہے کہ اپنے کردار کی اصلاح کریں کسی کے پول کھولنے کی بجائے اپنی کھلی کتاب بند کرنے کی کوشش کریں ـ

آج الحمدِلِلہ !!!26 کامیاب سال ہم اکٹھے گزار چکے ـ ان گزرے ماہ و سال میں کہیں تو میری برداشت کام آئی کہیں ان کا صبر ہم دونوں نے اپنی اپنی جگہہ اپنے مسائل کو حل کیا ایک دوسرے کو پریشان نہیں کیا بلکہ پریشانیوں میں ایک دوسرے کا بھرپور ساتھ دیا ـ

ہر رشتہ قربانی مانگتا ہے ـ آج ان قربانیوں کا ثمر اللہ پاک دکھا رہا ہے ـ الحمد للہ!! جلد ہی مزید دو بچیوں کے فرض سے سبکدوش ہو جاؤں گی ـ رب کریم کا شکر ہے کہ اس نے قناعت پسند بنایا اندھی تقلیدی دوڑ میں کبھی بھاگی نہیں ـ

میری زندگی میرے گھر میری فیملی میری عزیز از جان سہیلیوں اور میری قابلِ فخر کمیونٹی کے درمیان گزری ہے ـ الحمد لِلہ!! اللہ پاک نے پہچان بھی دی ہے نام بھی دیا ہے ـ احترام بھی دیا ہے اس کی اہمیت تین سال سے نمودار ہونے والے فیس بک کلچر کو نہیں ہو سکتا ـ جن کے ساتھ احترام تعظیم لحاظ کے ساتھ وقت گزرا ہے وہ اہمیت بھی جانتے ہیں اور مانتے بھی ہیں ـ آج بھی ہم ناراض ہوں لیکن جب ایک دوسرے کو آواز دیتے ہیں تو نتیجہ فوری طور پے سامنے آتا ہے ـ اس کو کہتے ہیں تعلقات کا بھرم جو آجکل مفقود ہےـ آجکل صرف دعوے ہیں جھوٹے کھوکھلے رشتوں کی تکرار ہے خود کو ہر طرح سے اہم ثابت کرنا ہے ـ خواہ اس دوڑ میں ہم اپنے بچوں کی محبت سے ہاتھ دھو بیٹھیں ـ

آج ایک نہیں کئی ادارے ساتھ ہوں کام کر رہی ہوں مزید کرنا ہے ـ اپنی خواتین کیلیۓ اپنے پاکستان کیلئے ـ

دوست ہیں رشتے ہیں ـ مصروف ترین وقت ہے ـ پردیس میں اتنی مکمل اتنی آسودہ زندگی کسی کسی کی قسمت میں ہے ـ پی ٹی آئی میں کسی نے قیمتی مشورہ دیا تھا کہ خدارا “” اندھی تیز اس دوڑ میں اپنے گھر کو برباد نہ کیجیۓ گا”” ان کو مسکرا کے جواب دیا تھا کہ کامیاب شاہ بانو میر!!! صرف اپنے شوہر کے نام کے ساتھ کامیاب ہے ـ اس کی قدر اس کی اہمیت مجھے قدم قدم پر ہے ـ اس لیے فکر نہ کریں گھر پہلے اس کے بعد سب کچھ ـ
کامیاب ازدواجی زندگی کا اصول عورت کیلئے صرف ایک ہے ـ جس نے وہ اپنا لیا وہ اس کو کامیابی سے گزار گئی اور جس نے اپنی تعلیم کو اپنی انا کو اپنی ذات کو مرد پے فوقیت دی تو بے شک وہ معاشرے میں کتنی محنت کر کے آگے بڑھ جائے ـ ایک شکستِ مسلسل اس کے ساتھ ساتھ سائے کی طرح رہتی ہے ـ یہ ہمارے کچھ معاشرتی ضابطے ہیں جن کو فی الوقت بدلنا مشکل ہے ـ تنہا عورت کی ذات ہر جگہہ سوالیہ نشان بن جاتی ہے ـ

خواتین کیلئے لئے غلط ہے یا صحیح ضابطہ ایک ہی ہے اور وہ ہے ـ

مر وے جیا مر وے
توں مریں تے وسے گھر وے