کرپشن یا سیاسی مداخلت؟

corruption

corruption

کسی بھی ملک میں نئے پراجیکٹ شروع کرنے سے قبل منصوبہ بندی کی جاتی ہے ۔ زمانہ امن ہو یا جنگ ، نئی بلڈنگ تعمیر کرنی ہویا سٹرک ، نئی پالیسی ، نظام یا قانون ہر کام کرنے سے قبل منصوبہ بندی کو خاص اہمیت دی جاتی ہے ۔ منصوبوں کے آغاز سے قبل ہی اس منصوبے کی فزیبلٹی رپورٹ ، اغراض ومقاصد ، تخمینہ لاگت سمیت دیگر تمام زایوں پر غور کرکے منصوبہ بندی کی جاتی ہے تاکہ اس کو کامیاب بنا یاجاسکے اور کسی بھی پراجیکٹ کی کامیابی کیلئے ضروری ہے کہ اس پراجیکٹ کی منصوبہ بندی انتہائی ایمانداری اور ذمہ داری سے کی جائے تاکہ اسکے منصوبہ کے اغراض و مقاصد حاصل کئے جاسکیں ۔ حکومتیں بھی کسی منصوبہ کے آغاز سے قبل منصوبہ بندی کرتی ہے ۔ سالانہ بجٹ سے قبل تمام منصوبہ کا تخمینہ اور متعلقہ اداروں اور ضلعی حکومتوں سے مطلوب وسائل اور دیگر تفصیلات طلب کی جاتی ہیں تاکہ بجٹ میں ہر پراجیکٹ کیلئے فنڈز مختص کئے جاسکیں اس مقصد کیلئے ضلعی حکومتوں کیلئے اربوں کے فنڈز بھی مختص کئے جاتے ہیں تاکہ ضلعی حکومتیں پورے سال کے دوران ترقیاتی منصوبوں پر عملدرآمد کرسکیں۔ لیکن بدقسمتی سے فنڈز مختص ہونے کے باوجود ضلعی سطح پر سارا سال ترقیاتی کام شروع نہیں ہوپاتے ۔ مختلف وجوہات کی بنا پر ترقیاتی کام سارا سال رکے رہتے ہیں اور جونہی مالی سال کے اختتام کا آخری ماہ شروع ہوتا ہے ۔ صوبہ بھر میں ترقیاتی کاموں کے پر دن رات کام شروع کردیا جاتاہے۔ ہر محکمہ خواہ ٹی ایم اے ہو یا کنٹونمنٹ بورڈ، لوکل گورنمنٹ ہو یا بلڈنگ وروڈ، پورا سال خاموش رہتاہے اور مالی سال کے آخری ماہ میں زور وشور سے کام شروع کردیا جاتاہے ۔ ایک اندازے کے مطابق پورے سال میں صرف 20فیصد کام ہوتاہے جبکہ مئی کے دوران 80فیصد ترقیاتی کاموں کے ٹھیکہ جات کی نیلامی عمل میں لائی جاتی ہے اس کی مختلف وجوہات بھی بیان کی جاتی ہیں۔ سب سے بڑی وجہ جو سرکاری عہدیداروں کی طرف سے بیان کی جاتی ہے وہ ٹھیکہ جات کی منظوری کا طریقہ کار ہے ۔ ان کے مطابق کسی بھی منصوبہ کے آغاز سے قبل متعلقہ محکمہ میں یا ایم پی اے منصوبہ کی تفصیل ای ڈی او ایف اینڈ پی کو ارسال کرتے ہیں جس کے بعد یہ منصوبہ حکومت پنجاب کو بھجوائے جاتے ہیں۔ جہاں سے منظوری ہونے کے بعد سکیمیں فائنل ہوتی ہیں اور پھر یہ سکیمیں منظوری کیلئے ڈسٹرکٹ سٹیئرنگ کمیٹی میں پیش کی جاتی ہیں ۔ جہاں سے منظوری کے بعد ترقیاتی سکیموں پر باقاعدہ کام شروع کردیا جاتاہے ۔ یہ سارا عمل مکمل ہوتے ہوئے سارا سال گزرجاتاہے ۔ حکومتی عہدیدار نے یہ بھی بتایا کہ ایم پی ایز کی طرف سے سکیموں کی منظوری کے بعد دوسری سکیم پیش کردیتے ہیں اور پہلی سکیم کی جگہ دوسری سکیم پر عملدرآمد کیلئے زور دیتے ہیں چونکہ حکومت ایم پی ایز کیلئے فنڈز مختص کرتی ہے۔ جوان کی پیش کردہ سکیموں پر ہی خرچ ہوتے ہیں اس لیے حکومتی محکمے ان کی پیش کردہ سکیموں پر عملدرآمد کرانے پر مجبور ہوتے ہیں اور ایم پی ایز کا یہی غیر سنجیدہ رویہ منصوبوں میں التوا کا باعث بنتاہے۔ دوسری بڑی وجہ حکومتی محکموں کی عدم توجہی ہے جب یہ ترقیاتی منصوبے حکومتی محکموں کے پاس منظوری کے لیے جاتے ہیں تو ان میں بلاوجہ تاخیر کی جاتی ہے ۔ اکثر یہ منصوبے سرکاری افسران کی میزوں پر پڑے رہتے ہیں۔ اور کئی کئی ماہ تک نظر کرم نہ ہونے کہ وجہ سے یہ لیٹ سے لیٹ ہوجاتے جاتے ہیں اور جب مالی سال کا اختتام قریب آتا ہے توحکومت کے دبائو پر کام تیز کردیا جاتاہے اور دن رات کام پر زور دیا جاتاہے یہ ہوش عام طور پر مئی کے ماہ میں ہی آتی ہے کہ حکومت کی طرف سے جو فنڈ مختص کئے گئے ہیں وہ ترقیاتی سکیموں کے لئے کئے گئے ہیں لہذا ان پر عمل درآمد مالی سال کے اختتام پر شروع کیا جاتا ہے ۔ایک عام وجہ جو بیان کی جاتی ہے وہ افسران و عملہ اور ٹھیکیدار وں کا مالی مفاد ہے ہمارے معاشرہ میں چونکہ رشوت ناسور بن کر جڑیں مضبوط کر چکا ہے اور رشوت کے بغیر کام نہ ہونا ایک حقیقت جانا جاتا ہے تو اس لئے ایک تصور یہ بھی ہے کہ کمیشن کے حصول کیلئے جان بوجھ کر کام لیٹ کئے جاتے ہیں۔کام لیٹ ہونے کا فائدہ ٹھیکیداروں اور افسران و عملہ سب کو ہوتا ہے نقصان ہوتا ہے تو صر ف عوام کا ہوتا ہے ۔کام لیٹ ہونے کی وجہ سے مختلف قباحتیں بھی جنم لیتی ہیں سب سے بڑی قباحت تو یہ ہے کہ جب ایک ہی وقت میں ہزاروں کام شروع ہو جاتے ہیں اس دوران ان کاموں کا معیار چیک کرنا ممکن نہیں ۔افسران جو پہلے ہی موقع پر جاکر کام چیک کرنے کو تیار نہیں ہوتے تو ایک ماہ کے دوران ہونے والے مختلف کاموں پر جاکر کام کا معیار چیک کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور ٹھیکیداروں کی بھی یہ ہی کوشش ہوتی ہے کہ جلد از جلد کام مکمل کر کے جون کے اختتام سے قبل بل پیش کرکے اپنے بل نکلوائے جائیں ۔چاہے اس کے لئے ٹھیکیدار کو افسران و عملہ کی تمام ڈیمانڈز پوری کرنا پڑیں وہ پورے کرنے پر مجبور ہوتا ہے ۔اکثر افسران و اہلکار ایمانداری سے اپناکام بھی سرانجام دیتے ہیں جو عوام اور ٹھیکیداروں کے لئے نعمت سے کم نہیں ۔ٹھیکیدار بھی اس موقع سے بھر پور استفادہ کرتے ہیں میٹریل کے معیار اور مقدار سے انہیں کوئی غرض نہیں ہوتی اور وہ جلد سے جلدکام مکمل کرنے کیلئے دن رات ایک کر دیتے ہیں اور مالی سال کے اختتام سے قبل اپنے کام مکمل کر کے بل کے حصول کی کوشش کرتے ہیں جبکہ مالی سال کے اختتام کی وجہ سے اکثر منصوبے اگلے مالی سال میں شامل کر لئے جاتے ہیں اور اگلے مالی سال میں ہونے سے ان کی ساخت میں بھی تبدیلی آجاتی ہے اور منصوبہ کی لاگت میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے حکومت منصوبے کی تیاری کیلئے پہلے فزیبلٹی رپورٹ تیار کرتی ہے جس پر لاگت آتی ہے اس کے بعد منصوبہ کے مطابق فنڈ مختص کئے جاتے ہیں لیکن اگلے مالی سال میں شامل ہونے پر مہنگائی میں اضافہ کے باعث منصوبہ کی لاگت میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے اور حکومت ایک بار پھر فزیبلٹی رپورٹ کی تیاری اور دیگر امور پر لاکھوں روپے خرچ کرتی ہے اور اکثر اوقات تو منصوبوں کی لاگت میں دوگنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ حکومت سرکاری رہائش گاہوں میں قیام پذیر افسران اور اہلکاروں کی تنخواہوں میں ماہانہ ایم اینڈ آر (مینٹینینس اینڈ ریپئیر)کی مد میں کٹوتی کرتی ہے تا کہ ان کی رہائش گاہوں کی تعمیر و مرمت اور تزئین و آرائش کی جاسکے ۔اس مقصد کے لئے اربوں روپے کے فنڈز بھی رکھے جاتے ہیں اور حکومت کی جانب سے ہر سرکاری مکان کے تعمیر و مرمت کے لئے الگ الگ رقم مختص بھی کرتی ہے تا کہ ان سرکاری رہائش گاہوں کی حالت کو خراب ہونے سے بچایا جا سکے لیکن یہ رقم بھی بروقت استعمال نہیں ہو پاتی چونکہ یہ رقم مالی سال کے اختتام کے ساتھ ہی سرکاری خزانے میں واپس چلی جاتی ہے۔اس لئے ایم اینڈ آر کی مد میں بھی مالی سال کے اختتام پر بے حد کام کرایا جاتا ہے حکومتی قواعد و ضوابط کے مطابق ہر مکان کے لئے مختص رقم اسی مکان پر خرچ ہونی چاہئیے لیکن افسران اپنے گھر کے لئے مختص رقم سے کئی گنا زیادہ رقم اپنے گھر کی آرائش پر لگا دیتے ہیں اور چھوٹے سرکاری اہلکاروں کے مکان اکثر ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہتے ہیں،سال کے اختتام پر ایم اینڈ آر کی رقم کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے اور اس کا تمام تر مرکز بڑے افسران کی کوٹھیاں اور بنگلے ہوتے ہیں جبکہ چھوٹے اہلکار سارا سال تنخواہوں کے کٹوتی کرانے کے باوجود ٹوٹے پھوٹے گھروں میں گزارا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔حکومت پنجاب کی طرف سے صوبہ بھر کے سرکاری ہسپتالوں میں ادویات کی فراہمی کے لئے فنڈز بھی جون میں ہی مختص کر دئے جاتے ہیں اور یہ فنڈز متعلقہ اداروں تک پہنچا بھی دئے جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود سرکاری ہسپتالوں میں سارا سال ادویات نہیں خریدی جاتیں اور جیسے ہی مئی کا مہینہ شروع ہوتا ہے ان ہسپتالوں میں ادویات کی خریداری عروج پر پہنچ جاتی ہے اور مالی سال کے اختتام پر ادویات خریدی جاتی ہیں حالانکہ سرکاری ہسپتال سارا سال ادویات سے محروم رہتے ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ایسا نظام مرتب کرے جس کے تحت فنڈز کے استعمال، ترقیاتی کاموں کو شفاف بنایا جا سکے، سرکاری محکموں کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ مناسب منصوبہ بندی کے تحت ترقیاتی منصوبوں پر عمل درآمد کرے اور مالی سال کے اختتام پر ترقیاتی سکیموں کی منظوری اور آغاز کے بجائے ایسا میکنزم متعارف کرایا جائے جس کہ تحت سارا سال ترقیاتی منصوبوں پر کام جاری رہے تا کہ عوام کو اس سے بھرپور استفادہ ہو سکے اور ترقیاتی سکیموں کی تکمیل میں درپیش رکاوٹوں کو دور کیا جا سکے۔ سید احمد علی رضا