کریپشن ختم کیسے ہوگی

corruption police

corruption police

کریپشن ختم کرنے کے دعویدار تو بہت ہیں بڑے بڑے نعرے لگائے جاتے ہیں آج کل تمام محکموں میں کریپشن کی بھر مار ہے مگر پولیس کا محکمہ تو کسی کو ریکارڈ توڑنے نہیں دے رہا گذشتہ دنوں بوچھال کلاں میں ڈی پی او چکوال نے جب کھلی کچہری لگائی تو آتے ہی انہوں نے افراد کم ہونے کا شکوہ کیا تو پولیس اہلکاروں نے وہاں بھی کریپشن کرتے ہوئے ڈی پی او چکوال کو یہ کیہ کر ٹرخا دیا کہ پورے علاقے کی نمائندگی موجود ہے مزے کی بات تو یہ تھی کہ پولیس کے خلاف کائی شکایت نہیں کی گئی یعنی ان افراد کو بلایا گیا تھا جو کوئی شکایت نہ کریں ڈی پی او نے کھلی کچہری کے شرکاء سے کوئی خطاب بھی نہیں کیااور نہ ہی عوام کو کوئی پیغام دیا البتہ آتے وقت انہوں نے ایک بات کہی کہ پولیس کے خلاف ثبوت کے ساتھ شکایت کی جائے تو آج جو کہانی میں سنا رہا ہوں اس کے لئے نہ تو گواہوں کی ضرورت ہے اور نہ ہی ثبوتوں کی پولیس اہلکار خود ہی گواہ اور خود ہی ثبوت ہوں گے۔

 

گذشتہ روز عوام نے شکایت کی کہ ٹریفک پولیس کے اہلکار خوشاب روڈ میانی پر ناکہ لگا کر کاغذات چیکنگ کے بحانے بھتہ وصول کرتے ہیں اور اس وقت بھی وہاں موجود ہیں میں نے عوامی شکایت پر جب موقع پر پہنچ کر دیکھا تو ابرار نامی ٹریفک پولیس اہلکار سڑک پر ٹریکٹر اور موٹر سائکل روک کر اپنے دھندے میں مصروف تھے چونکہ وہ مجھے جانتا نہیں تھا مجھے دیکھ کر اس کا پارہ خوب چڑھا کہ میں وہاں کیوں آگیا ہوں میرے تعارف کے بعد وہ جیسے بدمعاش ہو مجھ پر چڑھائی کرنے کی کوشش کی بحر ھال اس دن تو میں واپس آگیا مگر دوسرے دن میں کیمرہ لے کر گیا کہ ثبوت لے کر ڈی پی او کو دیکھاوں گا وہ جب ناکہ لگا کر اپنے کام میں مصروف ہوا میں کیمرہ تیا کر کے اس کی تصویر بنانے لگا تو وہ غصے میں آگیا اور خود کو خوشنود علی خان کا کزن بتانے لگا اپنی بیلٹ اتار کر مجھ پر حملہ آور ہو گیا مگر مجھ پر حملہ شائد موقع کی نزاکت دیکھتے ہوئے نہ کر سکا اسی دوران بوچھال کلاں پولیس چوکی کی گاڑی آگئی جس میں سوار پولیس اہلکار جو سول کپڑوں میں تھے اپنے آپ کو ائے ایس آئی بتایا جو بعد میں معلوم ہوا کہ سپاہی تھا نے میرے ساتھ بدتمیزی کرتے ہوئے مجھ سے پریس کارڈ طلب کیا میں نے جب اسے کارڈ دیکھایا تو اس نے کارڈ اپنے قبضے میں لے کر مجھ سے کیمرہ چھیننا چاہا تاکہ وہ بنی ہوئی تصویر ضائع کر دے اور اپنے پیٹی بھائی کے خلاف ثبوت ختم کر سکے اس نے مجھے دھمکی دی کہ وہ کار سرکار میں مداخلت کا مقدمہ درج کریں گے۔

 

یعنی بھتہ خوری پولیس کی نظر میں کار سرکار ہے جب ان کی نہ چلی تو وہ وہاں سے چلے گئے اور ابرار نامی ٹریفک پولیس کے اہلکار نے مجھے بلیک میلر اور نام نہاد صحافی قرار دیا جب میں بھی میانی اڈا پر آگیا چند ہی منٹ کے بعد ابرار نامی اہلکار بھی وہاں آگیا اور معززین کی منت سماعت کرنا شروع کر دی کہ مجھے بچاو میں نے غلطی کر دی ہے مسلہ یہاں یہ ہے کہ کریپشن کی نشاندہی کیسے ہو اگر کوئی کریپشن کی نشاندہی کے لئے سامنے آئے تو وہ بلیک میلر ہے۔

 

پولیس والے ان کے کام کو کار سرکار سمجھتے ہوں صحافیوں کو بھی نشاندہی کی اجازت نہ ہو تو کریپشن کو ختم کیسے کیا جائے یا پھر کوئی کریپشن ختم کرنے کے دعوئیدار خاموشی اختیار کر جاہیں اور بے چارے عوام کو کریپشن کی اس دنیا میں ہی جینے دیں میں ڈی پی او چکوال سے کہوں گا کہ وہ ایک بار پھر کھلی کچہری لگاہیں تاکہ انہیں پتہ چلے کہ کریپٹ اہلکار کون ہیں وہ مجھے بلیک میلر ثابت کریں یا پھر اپنے ملازموں کو لگام دیں میرا چیلج ہے ڈی پی او صاحب میرا دشمن بھی مجھ پر انگلی اتھا جائے مجھ پر مقدمہ درج کیا جائے یا پولیس میں موجود کالی بھیڑوں کے خلاف کاروائی کر کے کریپشن کے خاتمے میں پہلا قدم اٹھاہیں۔ تحریر ریاض احمد ملک