یہودی مسلمان کا محسن

Imtiaz Ali Shakir

Imtiaz Ali Shakir

خاکسار کے ناقص علم کے مطابق ۔اللہ تعالیٰ نے قیامت تک انسانیت کی رہنمائی کے لیے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم پر قرآن کریم نازل فرمایا اور یہ فرمادیا کہ جولوگ احکام الٰہی یعنی قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کے مطابق زندگی بسر کریں گے وہ مسلمان ہیں ۔میراایمان ہے کہ اللہ اتعالیٰ کے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے مسلمانوں کی زندگی کے ہر پہلوپر رہنمائی فرمائی ہے۔جیسا کہ سرکاردوعالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کہ یہود ی کبھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے۔میرے نزدیک دوست کی مختصر تعریف یہ ہے کہ جو شخص میرے اور میرے دین(اسلام) کے ساتھ مخلص ہے وہ میرا دوست ہے اور یہ بات توساری دنیا جانتی ہے کہ یہودی مسلمان اور اسلام دونوں کا دشمن ہے ۔

قارئین محترم جب نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرما دیا کہ یہودی مسلمانوں کے دوست نہیں ہوسکتے تو پھرہم یہودی کو اپنا محسن کس طرح مان سکتے ہیں ؟؟میں یہ سوال آپ کے ساتھ ساتھ اپنے آپ سے بھی اس لیے پوچھ رہا ہوں کہ میں ایک مسلمان صحافی و کالم نویس جاوید چودھری کا ،کالم پڑھ بیٹھا ہوں ،جس میں محترم لکھتے ہیں کہ پیرس میں ان کی ملاقات ایک (ربی)نامی یہودی سے ہوئی جواسلام پر (پی ایچ ڈی )کررہا تھا ۔محترم لکھتے ہیں کہ میں نے یہودی سے پوچھا کہ تم اسلام کے کس پہلو پر پی ایچ ڈی کررہے ہو؟ ”وہ شرما گیا اور تھوڑی دیر سوچ کربولا ”میں مسلمانوں کی شدت پسندی پرریسرچ کر رہاہوں”میں نے قہقہ لگایا اور پوچھا”(قارئین :غور کریں ایک یہودی مسلمانوں کو شدت پسند کہہ رہا ہے اور جناب کہتے ہیں۔

میں نے قہقہ لگایا)”تمہاری ریسرچ کہاں تک پہنچی؟”اس نے کافی کا لمبا سپ لیا اور بولا”میری ریسرچ مکمل ہوچکی ہے اور اب میں پیپر لکھ رہا ہوں ”میں نے پوچھا تمہاری ریسرچ کی فائنڈنگ کیا ہے؟”اس نے لمبا سانس لیا دائیں ،بائیں دیکھا گردن ہلائی اور آہستہ آواز میں بولا”میں پانچ سال کی ریسرچ کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مسلمان اسلام سے زیادہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے محبت کرتے ہیں ،مسلمان اسلام پر ہر قسم کا حملہ برداشت کرجاتے ہیں لیکن نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی ذات پر اٹھنے والی انگلی برداشت نہیں کرتے ”یہودی نے مزید کہا کہ اس کی ریسرچ کے مطابق مسلمان جب بھی لڑے ،جب بھی اٹھے ،جب بھی لپکے اس کی وجہ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی ذات تھی ‘ ۔آپ مسلمانوں کے ملک پر قبضہ کرلیں،قرآن کریم کی اشاعت پر پابندی لگ جائے، کوئی ان کی مسجد پر قبضہ کرلے یا کوئی ان کا سارا خاندان قتل کردے یہ سب کچھ برداشت کرلیتے ہیں ۔لیکن اپنے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی گستاخی برادشت نہیں کرتے۔

اس کالم میں یہودی کی اور بھی باتیں شامل ہیں لیکن اب میری برداشت سے باہر ہوتی جارہی ہیں ۔جاوید چودھری لکھتا ہے کہ وہ اس دن سے اس یہودی(ربی) کو اپنا محسن سمجھتا ہے ۔جناب لکھتے ہیں میں اس یہودی سے ملاقات سے پہلے تک صرف سماجی مسلمان تھا لیکن اس نے مجھے دو فقروں میں پورا اسلام سمجھا دیا۔قارئین محترم تھوڑا سا غور کریں ایک یہودی نے پانچ سال بقول جاوید چودھری صرف مسلمانوں کی شددت پسندی پر ریسرچ کی لیکن محترم کو دو فقروں میں پورا اسلام سمجھا دیا۔میں عالم دین تو نہیں لیکن اتنا جانتا ہوں کہ میرا محسن کوئی یہودی نہیں ہوسکتا ۔آپ کیا سمجھتے ہیں یہودی مسلمانوں کے دوست یا محسن ہوسکتے ہیں؟ یا نہیں ؟مجھے اس نمبر پرsmsکرکے ضرور بتائیے گا03154174470۔ جاوید چودھری کی خدمت میں عرض کرتا چلوں کہ مسلمان جب بھی لڑے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور اسی کے حکم سے دین(اسلام ) کی بقا کی خاطر لڑے ۔تاریخ گواہ ہے کہ میرے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اپنے ذات پر حملہ کرنے والوں کو سدا معاف ہی کیا ۔ لیکن ہم گستاخوں کو ہرگز معاف نہیں کر سکتے ۔

embassy destroy of U.S

embassy destroy of U.S

نبی کری مصلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والوں کوایسی سزا ملے گی جو ان کے وہم گمان میں بھی نہیں ۔میرا سب کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم پر قربان ۔لیکن میں ایسی کوئی بات نہیں کرنا چاہتا جس سے دنیا مسلمانوں کو شدت پسند کہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی ذات اسلام سے جُدا نہیں ۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوا کہ ”وہی (اللہ)تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کوہدایت اور دین حق دے کر بھیجا، تاکہ اس دین کو دنیا کے تمام دینوں پر غالب کردے”کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص عاشق رسول صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ہوتے ہوئے اسلام پر کسی قسم کا حملہ برداشت کر لے؟ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سورہ آل عمران :٤٤١)میں ارشاد فرمایا ”اور نہیں ہیں محمد(صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ) مگر اللہ کے رسول جن سے پہلے اور بھی بہت گزر چکے ہیں۔سواگر آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا وصال ہوجائے یاآپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم شہید کردئیے جائیں تو کیا تم الٹے پائوں پھر جاؤ گے ؟ اور جو شخص الٹے پائوں پھرے گا ۔

وہ اللہ کو ذرہ برابر بھی نقصان نہیں پہنچا سکے گااور اللہ عنقریب شکرگزاروں کو انعام دے گا” صحابہ کرام کی سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے محبت کا یہ عالم تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اس دنیا سے رخصت ہوئے وہ وقت پوری اُمت پر قیامت کی گھڑی کی طرح تھا۔حضرت عثمان غنی پر سکتے کا عالم طاری ہوگیا ،حضرت علی المرتضی ٰشدت غم سے بے ہوش ہوگئے ،کئی صحابہ نے جنگل کی راہ لی اور حضرت عمر فاروق کی یہ حالت ہوئی کہ وہ تلوار کھینچ کرکھڑے ہوگئے اور اعلان کیا کہ جویہ کہے گاحضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا وصال ہوگیا ہے ،میں اس کی گردن اڑادوں گا۔اس وقت حضرت ابوبکر صدیق نے صبر وتحمل سے کام لے کر مسلمانوں کو اکٹھا کیا اور خطبہ دیتے ہوے فرمایاکہ ”لوگوں تم میں سے جوشخص اللہ کی عبادت کرتا تھا، وہ جان لے کہ تحقیق اللہ زندہ ہے، اس پر کبھی موت نہیں آسکتی ،اور اگر(بالغرض)کوئی شخص محمد صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی عبادت کرتا تھا تووہ جان لے کہ محمد صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم وفات پاگئے” ۔
تیسری بات یہ کہ میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی شان میں کوئی گستاخی کرہی نہیں سکتا یہ خاکے اور فلمیں تو یہودیوں کی ایک سازش ہے جس کے ذریعے وہ مسلمانوںکو اور زیادہ کمزورکرنا چاہتے ہیں ۔میراایمان ہے کہ آج مسلمان اپنا قبلہ درست کرلیں ،قرآنی تعلیمات اور احدیث مبارکہ پر عمل کرنا شروع کردیںتوکوئی مائی کا لال نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے کی جرات نہیں کرئے گا ،قارئین محترم اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مسلمان نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی شان میں گستاخی برداشت نہیں کرتے ۔لیکن ایک یہودی کے منہ سے یہ بات سن کر اسے اپنا محسن تو نہیں مان سکتے ہم کیونکہ جس ہستی کی شان میں مسلمان گستاخی برداشت نہیں کرتے۔

اسی ہستی یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کہ یہود ی کبھی بھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے۔جو ہمارا دوست نہیں ہوسکتا وہ ہمارا محسن بھی نہیں ہو سکتا ۔مجھے لگتا ہے کہ چودھری صاحب نے سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی یہ حدیث پڑی نہیں یا پھرجناب بھی دور جدید کے لبرل مسلمان ہیں ۔یعنی عاشق رسول صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ہیں لیکن ان کی حدیث پر عمل کرنا ضروری نہیں سمجھتے ۔شاعر کہتا ہے کہ ‘دل دریا سمندروں ڈونگے تے کون دلیاں دیاں جانے ۔کس کے دل میں کیا ہے یہ تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔اگر مسلمان اپنا کھویا مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ان کو یہودیوں کے ہاتھ پر بعیت ہونے کی بجائے ان سے ہر تعلق ختم کرکے اپنا رشتہ اللہ،اُس کے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اور دین(اسلام )سے جوڑناہوگا۔کیونکہ حق اور باطل کبھی ایک جگہ اکٹھے نہیں رہ سکتے ۔جہاں حق پہنچ گیا وہاں سے باطل کا خاتمہ لازم ہوگیا۔ اس لیے اگر ہم مسلمان ہیں تو ہمیں قرآن کریم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی احدیث مبارکہ سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے ۔نہ کہ کسی یہودی سے۔

آخر میں آپ کی نظرجناب علامہ مشرقی صاحب کا ایک پیغام کرنا چاہوں گا۔ علامہ مشرقی نے مسلمانوں کی سربلندی کے جو ترجیحات بیان کیںہیں ۔آج ان پر غور فکرکرنے کی ضرورت ہے۔علامہ مشرقی فرماتے ہیں ”مسلمانوں کی آپس میں لڑنے والی طاقتوںکومتحد کیا جائے،رہنمائوں کو اکٹھا کیا جائے،محلہ وار تنظیم کی جائے،شہر کوشہراور صوبے کوصوبے سے ملا دیا جائے،عمل کرنے والوں کو میدان میں نکلنے کی ترغیب دی جائے ،مجاہدانہ قابلیتیں بیدار کی جائیں ،اسلامی نصب العین کو باربار دہرایا جائے ،ہمسایوں سے کامل رواداری پیدا کی جائے، کمزور کے حوصلے عمل کرنے کے لیے بلند کئے جائیں ،اور مسلمانوں کو اپنی پرانی تاریخ یاد دلائی جائے ،ان پر قرآن کریم واضح کیا جائے ۔

ان کو حدیث کی حکمت سے آگاہ کیا جائے ،تجارت کے عملی سامان پیدا کئے جائیں ،آپس میں ایک دوسرے کی فرمابرداری کا اخلاق پیدا کیا جائے،سرکشی اور شیطانی جذبات مٹادئیے جائیں ،الغرض !اجتماعی اور سیاسی غلبے کی ہوا پھر سے باندھ دی جائے”اللہ سے دعا ہے کے کہ۔یا اللہ تمام مسلمانوں کوقرآنی تعلیمات اور احدیث مبارکہ کو سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق و طاقت عطا فرماکر تمام دشمنوں کے شر سے بچا۔آمین

تحریر : امتیاز علی شاکر