۔۔۔اقتدار کا نشہ ۔۔۔

asif ali zardari

asif ali zardari

پاکستانی سیاست میں حصولِ اقتدار کیلئے اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی ایک ایسی حقیقت ہے جس سے صرفِ نظر کرنا ممکن نہیں ہے۔ اگر ہم ماضی کے واقعات پر ایک نگا ہ ڈالنے کی کو شش کریں تو یہ حقیقت اظہر من ا لشمس نظر آتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے ہمیشہ اپنی من پسند حکو متیں قائم کیں اور پھر انھیں اپنی صوابیداد سے چلتا بھی کیا اور کسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگ سکی ۔ 1985کے غیر جماعتی انتخابا ت سے ایک ایسے کھیل کا آغاز ہوا جس میں جمہو ری چہرے کے پیچھے ا سٹیبلشمنٹ نے خوب گل کھلائے اور جمہوری حکو متوں کی رخصتی کا ایک نیا ،انوکھا او دلچسپ طریقہ کار ا یجاد کیا ۔ عدلیہ نے اسٹیبلشنٹ کے تیار کردہ اس سکرپٹ میں اپنا رول بڑی خوبصورتی سے ادا کیا۔مئی 1988میں وزیرِ اعظم محمد خان خان جونیجو کی حکومت کو جنرل ضیا الحق نے کرپشن کے الزامات کے تحت برخاست کیا تو عدلیہ نے انتہائی نیاز مندی سے اس پر مہرِ تصدیق ثبت کی۔

 
جنرل ضیا الحق نے آرمی چیف اور صدرِ پاکستان کے دونوں عہدے کئی سال تک اپنے پاس رکھے لیکن کسی میں اتنی جرات نہیں تھی کہ وہ جنرل ضیا الحق کے خلاف ان کے ان دونوں عہد وں کے بارے میں کوئی آئینی درخواست داخل کر کے انھیں نا اہل کروانے کی جسارت کرتا ۔آج کل عوام کو جو بڑے بڑے پارسا چہرے میڈیا پر توہینِ عدالت۔ ملکی سلامتی، میمو گیٹ اور آصف علی زرداری کی نااہلی کے لئے بڑے متحرک نظر آتے ہیں یہ سارے کے سارے پارسا جنرل ضیا الحق کی مٹھی میں بند تھے اور جنرل ضیا الحق کی خوشنودی اور اس کی قدم بوسی کو اپنی زندگی کی سب سے بڑی سعادت سمجھتے تھے۔ ابھی تو کل کی بات ہے مسلم لیگ (ق) کے سارے لیڈر جنرل پرویز مشرف کو وردی میں سو دفعہ صدرِ پاکستان منتخب کروانے کا اعلان کر رہے تھے اور یہ اعلان کوئی پہلی بار نہیں ہوا جنرل ضیا الحق کے سارے حواری بھی اسی طرح کے جذبات کا اظہار کیا کرتے تھے لیکن پی پی پی کی عوامی حکومت کے بر سرِ اقتدار آتے ان پارسائوں کی غیرتِ ملی بھی جاگ جاتی ہے اور ان کی جمہوری رگ بھی پھڑکنے لگتی ہے حالانک آمریت کے ادوار میں یہ رگ اپنا کام کرنا بھول جاتی ہے اور غیرت والی رگ کی جگہ ذاتی مفادات کی رگ اپنا کام شروع کر دیتی ہے جو انھیں خاموش رہنے کا درس دیتی رہتی ہے۔

 

پی پی پی تو جنرل ضیا الحق کے عتاب کا نشانہ بنی ہو ئی تھی لہذا اسے تو چن چن کر چھتر مارے جا رہے تھے۔ پی پی پی کے جیالے تو معاشرے کے معتوب افراد تھے لہذا عدالتوں میں ان کی شنوائی کا کوئی امکان نہیں تھا۔ جن کے بے گناہ لیڈر کو پھانسی چڑھا دیا گیا ہو اس جماعت کی عدلیہ میں شنوائی کا تصور کرنا چنداں مشکل کام ہے لیکن وہ جو آج خود کو جمہوریت کا چیمپین اور عدل و ا نصاف کا علم بردار کہتے ہیں اس وقت ان کی بولتی کیوں بند تھی۔وہ اس وقت کہاں تھے جب آئین کو پسِ پشت ڈال دیا گیا تھا اور جمہوریت کو شجرِ ممنوعہ قرار دے کر جمہوریت پسندوں کو کوڑے مارے جا رہے تھے۔ اس وقت بھی پی پی پی کی قربانیاں ہی جمہورت کی بحالی کی بنیاد بنی تھیں اور پھر جب جنرل پر ویز مشرف کی آمریت ملک پر اپنے خون آشام پنجے گاڑے ہوئے تھی تو ایک دفعہ پھر پی پی پی کی قربانیوں سے ہی جمہوریت کا سورج طلوع ہوا تھا۔ وکلا ء تحریک میں پی پی پی کے جیالوں کا لہو شامل نہ ہوتا تو آج افتحار محمد چوہدری بھی بولی بسری داستان ہو تے۔

 

محترمہ بے نظیر بھٹو وطن واپس نہ آتیں اور جنرل پرویز مشرف کی آمریت کونہ للکارتیں تو پھر میاں محمد نواز شریف بھی کبھی وطن واپس آ کر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہ لے سکتے ۔ یہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے لہو کا صدقہ ہے کہ آج پاکستان میں جمہوریت ہے وگرنہ یہاں تو آمریت قابض تھی اور میرے یہ سارے پارسا دوست اسی آمریت میں خا موشی کی چادر لپیٹ کر سو رہے ہوتے۔مفادات بھی عجیب و غریب چیز ہیں۔ یہ اصولوں کو نگل جاتے ہیں، نظریات کا خون کر دیتے ہیںاور سچ کے وجدان سے بے بہرہ کر دیتے ہیں ۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ جب جنرل ضیا الحق کے حواری اور خوشہ چین جمہوریت کی جنگ لڑنے کا اعلان کرتے ہیں تو ان کا ضمیر ان کو کتنی لعنت ملامت کرتا ہو گا لیکن جب ضمیر ہی مردہ ہو جائے توپھر کیا ہوتاہو گا یہ بھی ایک دن ان نام نہاد پارسائوں سے پوچھنا پڑے گا کیونکہ ضمیر کا سودا کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ایک ہی تو چیز ہے جس میں وہ بے مثال ہیں اور وہ چیز ضمیر کو بیچنے کا فن ہے اور اس دھندے میں وہ بالکل یکتا اور منفرد ہیں اور کوئی ان کی ہمسری کا دعوی نہیں کر سکتا۔

 

جنرل ضیا الحق کی الم ناک موت کے بعد غلام اسحاق خان پاکستان کے صدر بنے تو اسٹیبلشمنٹ کی چالوں میں کوئی فرق نہ آیا۔ جنرل ضیا الحق کے مدون شدہ آئین کے مطابق ٥٨ ٹو بی کے تحت صدرِ پاکستان کو اسمبلی تورنے کا اختیار حاصل تھا اور غلام اسحاق خان نے دل کھول کر اس اختیار کو استعمال کیا۔ ایک دفعہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کو رخصت کیا تو دوسری دفعہ میاں محمد نواز شریف کی حکومت کو چلتا کیا ۔ پی پی پی تو معتوب جماعت تھی لہذا عدلیہ نے بھی کھٹ سے اس کی رخصتی کو حق بجانب قرار دے دیا لیکن جب آئی مرزا دی واری تے ٹٹ گئی تڑک کر کے کہ مصداق میاں محمد نواز شریف کی اسمبلی بحا ل کر دی گئی کیونکہ میاں محمد نواز شریف جنرل ضیا لحق کے منہ بولے بیٹے تھے اور اسٹیبلشمنٹ کی ایک واضح اکثریت میاں محمد نواز شریف سے اظہارِ عقیدت رکھتی تھی۔

 

بہر حال بہت سے حیلے بہانوں سے میاں محمد نواز شریف کو استعفے دینے پرمجبور کیا گیا جو انھوں نے شرافت میں پکڑوا دیا اور لوٹ کے بدو گھر کو آئے کے مصداق اقتدار سے انھیں دیسن کالا ملا اور یوں اسٹیبلشمنٹ نے اپنی بالا دستی کو قائم رکھا۔نئے انتخابات کے بعدایک دفعہ پھر محترمہ بے نظیر بھٹو وزیرِ اعظم پاکستان بنیں لیکن اسٹیبلشمنٹ کی سازشوں میں رتی برابر فرق نہ آیا۔ اس دفعہ بھی ان کی حکومت کو کرپشن کے الزامات کے تحت پرخاست کیا گیا اور عدلیہ نے حسبِ روائت ا سٹیبلشمنٹ کے فیصلے پر مہرِ تصدیق ثبت کرنے میں نہائت عجلت کا مظاہرہ کیا۔اس دفعہ کی کاروائی پچھلی ساری کاروائیوں میں زیاداہ سفاک تھی کہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرادری کے خلاف سوئیس عدالتوں میں بھی مقدمات دائر کر دئے گئے تھے۔آصف علی زرداری جیل میں تھے اور محترمہ بے نظیر بھٹو جلا وطنی کی زندگی گزار رہی تھیں ۔ اسٹیبلشمنٹ خوش تھی کہ ان کی راہ کا کانٹا بڑی آسانی سے نکل گیا ہے اور پی پی پی بحثیتِ جماعت دھیرے دھیرے بکھر تی جا رہی ہے اور اقتدار پر ا سٹیبلشمنٹ کی گرفت مضبوط سے مضبوط تر ہو تی جا رہی ہے لیکن انھیں شائد خبر نہیں تھی کہ عوامی جماعتیں یوں بکھرا نہیں کرتیں اور پی پی پی جس کی بنیادوں میں شہیدوں کا لہو ہے وہ یوں بکھرنے والی جماعت نہیں ہے اسے ختم کرنے والے خود خاک میں مل کر بولی بسی داستان بن چکے ہیں لیکن یہ آج بھی پہلے کی طرح مظبوط اور توانا ہے۔

 

حضرت علی(شیرِ خدا) کا قول ہے کہ میں نے خدا کو اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا۔ انسان اپنی خو ا ہشوں کے بڑے قوی اور خوبصورت محل تعمیر کرتا ہے لیکن اس کے تعمیر کردہ محل کبھی کبھی ان دیکھی آندھیوں کی زد میں اس بری طرح سے آجاتے ہیں کہ ان کا نام و نشان تک ہی مٹ جاتا ہے۔ تحتِ طا ئوس کہاں ہے اور اس تحت پر جلوہ افروز ہو نے والی رضا شاہ پہلوی کی شخصیت جو خود کو ناگزیر سمجھا کرتی تھی اور اپنے اقتدار کے دوام کی خاطر لاکھوں لوگوں کو موت کے حوالے کر دینا معمولی بات تصور کرتی تھی کس مٹی میں مل گئی ؟ امام خمینی کے عظیم الشان انقلاب نے اس شخصیت کو اس بری طرح سے اقتدار سے بے دخل کیا کہ اس کیلئے اپنے وطن کی زمین تنگ پڑ گئی اور وہ بے بسی کے عالم میں اس دنیا سے رخصت ہو گیا ۔ اس کا آقا امریکہ بھی اسے بچانے کیلئے کچھ نہ کر سکا۔ جب فیصلے مقافاتِ عمل کی میزان میں ہوتے ہیں تو پھر وہاں پر کسی کو دم مارنے کی جا نہیں ہوتی۔ وہ کچھ ہو جاتا ہے جو انسان کے وہم و گمان سے ماورا ہو تا ہے۔

 

ساسانی خاندان کی ہزاروں سالہ تاریخ کے بے تاج بادشاہ کے خیطہ ادراک میں یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ ایک امام مسجد کا انتہائی غریب بچہ اس کی سلطنت کو تہہ و بالا کر کے رکھ دے گا لیکن ایسا ہی ہوا کیونکہ ساسا نی حکمران کے ظلم و ستم کی داستانیں حدود فرا موش ہو تی جا رہی تھیں اور ظلم جب حدود فراموش ہو جاتا ہے تو پھر اس کو مٹ جا نا ہوتا ہے۔ یہ ظلم وعدوان کس کے ہاتھ سے مٹے گا اس کا فیصلہ وہ کاتبِ تقدیر کرتا ہے جس کی مٹھی میں ہر ذی روح کی جان بھی ہے اور روزِ محشرجس کے سامنے ہر ایک کو ہیش ہو کر اپنے اعمال کی جوابدہی کے عمل سے بھی گزرنا ہے۔ حکمران آنے والے کل کو بھول جاتے ہیں اور یہی سمجھتے ہیں کہ ان کے اقتدار کا سورج کبھی غروب نہیں ہو گا لیکن سورج تو بہر حال سورج ہے جسے ایک معینہ مدت کے بعد ضرور غروب ہو نا ہو تا ہے لیکن اقتدار کا نشہ شا ئد غروب ہو نے کے سچ کو تسلیم کرنے سے عاری ہو جاتاہے تبھی تو ہلاکت اس کے مقدر میں لکھ دی جاتی ہے۔تحریر : ۔طارق حسین بٹ