11..اگست……1947…اور؟؟

Pakistan

Pakistan

23 مارچ کا یادگار دن اس لئے منایا جاتا ہے کہ اسی تاریخ کو لاہور کے منٹو پارک (آج جہاں یاد گار ایستادہ ہے )میں ایک عظیم الشاں جلسہ میں قرار داد لاہور منظور ہوئی جسے بعد میں قرار داد پاکستان کہا گیا۔ اب 14،اگست اِس لئے قومی جذبہ سے منایا جاتا ہے کہ یہی وہ تاریخ تھی جب دنیا کے نقشے پر ایک نیا ملک پاکستان ابھرا، اِس طرح ہر تاریخی دن کے ساتھ اک تاریخی حقیقت وابستہ ہے اِس طرح اقلیتیں خصوصاً مسیحی کمیونٹی 11 اگست کادن چند برسوں سے مناتی آرہی ہے۔ مگر خصوصاً مسیحی ہی اِس دن کو کیوں مناتے ہیں کیا خاص واقع اِس دن کے ساتھ وابستہ ہے ہاں اِس دن کی خاص الخاص بات کہ بابائے قوم قائد آعظم نے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی سے اپنا پہلا تحریری خطاب کیا۔

یہاں یہ بات انتہائی غور و فکر ہے کہ یہ پہلا تحریری خطاب تھا دوسری اہمیت یہ کہ یہ خطاب کسی پبلک جلسہ ،کسی استقبالیہ، یا کسی پریس کانفرنس سے سے نہیں بلکہ یہ تقریر آئین سازاسمبلی میں جس کے وہ پہلے منتخب صدر بھی تھے ،اس کے علاوہ آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر، پاکستان کے گورنر جنرل اور با بائے قوم، اس وقت قوم و ملک کی زمہ داری کے تمام عہدے اُن کی زات میں مرتکز تھے ،قائدآعظم کا یہ خطاب تاریخی دستاویز تھی اور ہے اگرتعصب اور نفرت کی عینک اتار کر اِس خطاب کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کیا جائے تویہ روز روشن کی طرح عیاں ہو گا کہ قائد کس قسم کا پاکستان چاہتے تھے ،اِس تقریر میں مسلم لیگی حکومتی پالسی کا وضاحت سے اعلان تھا اگر تو اِس خطاب کی روشنی میں اُس وقت آئین مرتب کرکے ملک کو دیا جاتا۔

تو کبھی مشرقی حصہ جدا نہ ہوتا جن لوگوں کو تاریخ اور قائد کے حالات زندگی کا ادراک ہے اُن کا یہ کہنا بجا کہ کہ قائد صدی کے عظیم و مدبر سیاستدان تھے کہ ناممکن کو ممکن بنا دیا ٍمگر ملک و قوم اور خصوصاً اقلیتوں کی بد قسمتی رہی کہ قائد جلد ہی جدا ہو گئے یا پھر آج میں اس سوچ میں غرق ہون کہ ملالہ یوسفزئی کے لئے تو فوری طور پر آرمی ہیلی کاپٹر استعمال میں لایا گیا مگر بابائے قوم کے لئے کٹھارا ایمبولنس، جو پہاڑی راستوں کا ایک ہزار میل سے زائد فاصلہ تھا طے کرنے کے قابل نہ تھی پھر وہ لوگ ملک کے ٹھیکیدار بن گئے جو اس کے مخالف تھے اُنہوں نے اور اُن کے پیشہ ور تاریخ نویسوں نے قائد کے افکار و نظریات کو مسخ کر دیا اور پاکستان کا نقشہ ہی بگاڑ دیا ،پھر بھی کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔

بلکہ آج بھی بقیہ پاکستان کے وجودکے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں، قائد کے نظریات و افکار کی من مانی تاویل و تشریح کر کے اُن کا بنیادی مفہوم ہی بدل دیا ہے۔ اب زیر بحث 11، اگست کا وہ خطاب ہے جس کی آئین کی تیاری میں میں بنیادی حثیت تھی ۔اِ س تاریخی خطاب میں قائد نے فرمایا آپ آزاد ہیں آپ کا کس ذات، عقیدے، یا مذہب سے تعلق، کار و بار مملکت کو اِس سے کوئی واسطہ نہیں ہم اِس بنیادی اصول سے ابتدا کر رہے ہیں ہم سب ایک ملک کے شہری ہیں، اور مملکت کے یکساں شہری ،اس سے قبل آپ اپنا ماضی بدل دیں اور اکٹھے کام کریں اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کا کس جماعت سے تعلق ہے آپ کا رنگ، ذات، اور مذہب کیا ہے یہ بات تم پر کھل کر واضح کرنا چاہتا ہوں۔

Quaid-e-Azam

Quaid-e-Azam

کہ اگر ہم نے اِسی جذبہ سے کام کیا تو بہت جلد یہ اقلیتی اور اکثریتی فرقہ (یہاں لفظ اقلیتی اور اکثریتی فرقہ استعمال کیا،جو قابل توجہ کی تمیز مٹ جائے گی ،یہاں قابل فکر پہلو یہ بھی ہے دوقومی نظریہ کی نفی ہوتی ہے کسی بھی ابہامکی گنجائش نہیں تاہم بعض اہل قلم اور سیاست دانوں نے اِس تقریر کو اپنی مرضی کے معنی دئے اور پھر گنجائش نکال کر قائد کے ارشاد و افکار کی نفی کی جناب ڈاکٹر وحید قریشی اپنے ایک تحقیقی مکالہ میںلکھتے ہیں قائد آعظم کی 11 اگست کی تقریر کو بعض دانشوروں نے سیکولرازم کا پیش خیمہ قرار دیا اور یہ خیال کر لیا کہ قائد نے نے یہاں سیکولرازم کی بات کی حالانکہ قائد آعظم نے جو کچھ کہا اِن کا پورا سیاق و سباق اِن کی سینکڑوں تقریروں کی روشنی میں متعین ہوتا ہے اس مرحلہ پر قائد آعظم اسلام بمقابلہ تھیوکریسی کی بات کر رہے ہیں۔

نا کہ اسلام بمقابلہ سیکولرازم کی بات ہو رہی ہے اب ڈاکٹر صاحب کے نزدیک اسلام اور اسلام بمقابلہ تھیو کریسی دو مختلف نظریات ہیں اِسی طرح اسلام بمقابلہ سیکولرازم ایک نظریہ ڈاکٹر صاحب کو یہ بھی گلہ ہے کہ بعض دانشوروں نے میرے نزدیک ڈاکٹر صاحب نے بھی اِس خطاب سے گجا ئش نکانے کی پوری کوشش کی ہے ،جبکہ یہ واضح ہے کہ پہلی سینکڑوں تقریریں بحثیت سیاستدان کیں، جن میں وقت کے مطابق لفظوں کا ردو و بدل ہوتا ہے پھر مجمع کی ساخت ووقت بھی پیش نظر ہوتا ہے اور تقاریر فلبدہیہ کی جاتی ہیں اُن کا وہی ریکارڈ ہوتا ہے جو اخبار کے نامہ نگار نے دوران تقریر نوٹ کئے اور (آج کے پرنٹ میڈیا کے مقابلے میں اُس دور کے حالات کوبھی پیش نظر رکھا جائے شام کودفتریا گھر میں بیٹھ کر تقریر لکھی جو تیسرے دن شائع ہوتی۔

جبکہ خود مقررّ بھی اپنی تقریر کے بعض حصے بھول جاتا بلکہ محررّ بھی اپنی لکھی ہوئی تحریر بھول جا تا کہ کیا لکھا مگر 11 اگست کی تقریر میں کوئی ابہام نہیں کہ یہ محض ایک سیاست دان کی زبانی تقریرنہ تھی بلکہ لکھی گئی تقریر اعلان پاکستان کے بعد دستور ساز اسمبلی سے پہلا خطاب تھا کاش اسمبلی اِس خطاب کو بنیاد بنا کر ملک کو آئین دے دیتی تو اِس تقریر سے کسی بھی قسم کی گنجائش نکالنا قائد کے نظریات و افکار کی کھلی نفی ہے بقول ڈاکٹر صاحب اسلام بمقابلہ تھیو کریسی یا اسلام بمقابلہ سیکولرازم یہ انتہائی اہم بحث طلب موضوع ہے 11 اگست کے دن اقلیتیں خصوصاً مسیحی ریلیوں، جلسوں، اور مذاکروں کے زریعہ عوام کو بابائے قوم کے افکار و نظریات کی یاد دہانی کراتی ہیں۔

Black Day minorities

Black Day minorities

یہ بتانا اور واضح کرنا چاہتی ہیںکہ قائد کس قسم کا پاکستان چاہتے تھے، کیا موجودہ پاکستان اُن کے خوابوں کی تعبیر ہے جو دو ٹکڑے ہو چکا ہے اور بقیہ آج خون میں لت پت ہے سابق حکومت نے اقلیتوں پر یہ احسان کیا کہ 11اگست کو یوم اقلیت قرار دیا ،مگر آج تک لفظ اقلیت کی تشریح نہیں کی گئی تو بھی غیر مسلم شہریوں نے اِسے خود پر چسپاں کر لیا ہے 19 جولا ئی 2013 کو پاکستان کرسچئین نیشنل پارٹی کے زیر احتمام آل کرسچئین پارٹی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں دیگر مطالبات کے مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ 11 کو اقلیتیں یوم سیاہ منائیں گی اور ریلیاں نکالیں گی لاہور میں پریس کلب سے اسمبلی ہال تک احتجاجی ریلی نکالی جائے گی تحریک پاکستان میں مسیحیوں کے کردار کو مسخ کر دیا گیا ہے۔

اقلیت قرار دیکر دوسرے درجے کے شہری بنا دئے گئے ہیں اقلیت نہیں پاکستانی شہری ہیں اور بلا امتیاز تمام حقوق کے حقدار اب اک نئے سوشل کنٹریکٹ کی ضرورت ہے جو متفقہ اور وقت کے تقاضوں کے ہم آہنگ جو تمام شہریوں کو بقول قائد آعظم پاکستان کے یکساں شہری تسلیم کرے قائد کے پیش نظر ماضی بھی تھا حال اور مستقبل بھی اُنکے سامنے، وہ قدیم نہیں جدید ریاست تشکیل دینا چاہتے تھے کہ دنیا ہزاروں صدیوں کی مسافت طے کر چکی ہے وہ ایساپاکستان بنانا چاہتے تھے ایسانظام دینا چاہتے تھے جہاں نفرت کا لفظ اپنے معنی کھو دے، ملک و قوم کی بد قسمتی کہ قائد کو زندگی نے مہلت نہ دی اور وہ اس سے غیر مسلم عوام کو نا قابل تلافی نقصان ہوأ ملک کے غیر مسلم عوام نہ تو مفتوح اور نہ ہی۔

نئے یا پرانے مہاجر بلکہ اِ س دھرتی کے حقیقی وارث مگر برطانیہ میں تو تارکین وطن کو تمام حقوم حاصل ہیں مگر یہاں اس دھرتی کے وارثوں کو بھی حاصل نہیں، اگر تو قائد آعظم کو بابائے قوم تسلیم کرتے ہیں (رسمی نہیں ) تو پھر زمانہ کی چال سے چال ملا کر اُن کے نظریات و افکار سے راہنمائی حاصل کریں تا کہ اُن کے خوابوں کا ایک خوشحال پاکستان ہو جہاں ہر شہری کو بلا رنگ نسل اور مذہب مکمل غیر مشروط آزادی حاصل ہو یہی قائد کی جدید ریاست کا تصور تھا جسے سیاستدانوں اور پیشہ ور دانشوروں نے گھجائش نکال نکال کر مسخ کر دیا ہے۔

Badar Sarhadi

Badar Sarhadi

تحریر : بدر سرحدی