1975 کے ضمنی الیکشن سے گیلانی کی وکالت تک اعتزازاحسن کا سفر

Pakistan

Pakistan

گوجرانوالہ سے راولپنڈی کی طرف سفرکرتے ہوئے گجرات کے مشہوربائی پاس شاہین چوک میں سے گزرناپڑتاہے۔شاہین چوک جسے بائیں طرف سرگودھا گجرات روڈ پر پہلا قصبہ کنجاہ آتا ہے جو کہ پاکستان کے ایک ”مایہ ناز”اورشرافت کے مجسمہ جناب قابل احترام عزت مآب اعتزازاحسن کا پہلا انتخابی حلقہ تھا۔یادرہے کہ یہ حلقہ جہاں سے اعتزازاحسن الیکشن لڑتے رہے ہیں پیپلزپارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی انورسماں کے قتل ہونے کے بعد خالی ہونے والی نشست تھی۔

انورسماں نے خودموت کا گلے لگاکرایک ایسے شخص کو سیاسی زندگی بخشی جو قائداعظم کی شرافت اور دیانت داری کاللکارنے پر اتر آیا۔ان موصوف کا نام ہے چوہدری اعتزاز احسن چودھری اعتزاز احسن پاکستان کے نامور وکیل اور سیاستدان بیرسٹر ان لاء چودھری اعتزاز احسن 27 ستمبر 1945ء کو مری ، ضلع راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے لیے ایچی سن کالج لاہور اور پھر گورنمنٹ کالج لاہور میں زیر تعلیم رہے۔ بعد ازاں قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے کیمبرج یونیورسٹی برطانیہ چلے گئے۔

کیمبرج سے واپسی پر اعتزاز احسن نے سی ایس ایس کے امتحان میں شرکت کی۔ انہوں نے اس وقت کے فوجی ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان کی حکومت کے خلاف شدید تنقید کی۔ پاکستان کی تاریخ میں وہ پہلے اور واحد طالب علم تھے جنہوں نے سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے کے باوجود ملازمت حاصل کرنے سے انکار کر دیا۔ان کا موقف تھا کہ وہ کسی فوجی حکومت میں ملازمت نہیں کر سکتے۔انہوں نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز 70 کی دہائی میں اس وقت کیا جب گجرات سے پیپلز پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی چودھری انور سماں کو قتل کر دیا گیا۔

یہ مارچ 1975 کی بات ہے۔ ان کی نشست پر چودھری اعتزاز احسن بلا مقابلہ منتخب ہوئے۔ انہیں صوبائی کابینہ میں اطلاعات اور منصوبہ بندی اور ترقی ملی۔1977ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت کی طرف سے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کی تحریک چلی تو لاہور میں وکلا کی ایک ریلی پر پولیس فائرنگ کا واقعہ رونما ہوا تو اعتزاز احسن نے احتجاجاً وزارت سے استعفیٰ دے دیا۔ نتیجتاً پیپلز پارٹی کی قیادت نے انہیں پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے پر پارٹی سے نکال دیا۔

جنرل ضیا الحق نے ایوان اقتدار پر قبضہ کیا تو اعتزاز احسن تحریک بحالی جمہوریت کے سرگرم رکن بن گئے۔ انہوں نے ایک بار پھر پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ اس دوران متعدد بار گرفتار ہوئے۔ انہیں سیاسی قیدی قرار دے کر بغیر کوئی مقدمہ چلائے جیل میں رکھا۔1988 میں اعتزاز احسن لاہور سے پیپلز پارٹی کی طرف سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1990ء میں وہ ایک بار پھر قومی اسمبلی میں پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔

تاہم 1993 کے انتخابات میں انہیں شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ وہ سابق پاکستانی وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی کابینہ میں مختلف اوقات میں داخلہ ، قانون و انصاف ، نارکوٹکس کنٹرول ، تعلیم کے وزیر رہے۔ 1994 میں وہ پاکستانی سینٹ کے رکن بنے۔ انہیں قائد ایوان منتخب کیا گیا۔ 1996 سے 1997 تک وہ قائد حزب اختلاف کے منصب پر فائز رہے۔ 2002ء کے انتخابات میں پیپلز کے ٹکٹ پر لاہور اور بہاولنگر میں قومی اسمبلی کی دو نشستوں سے جیت گئے۔

Supreme Court Pakistan

Supreme Court Pakistan

وہ سپریم کورٹ کے سیئیر وکیل ہیں انہوں نے دو سابق وزرائے اعظم بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف کے مقدمات لڑے۔ جمہوریت کے لیے خدمات کی بنیاد پر انہیں پاکستان کے تمام جمہوریت پسند طبقات میں غیر معمولی قدر و منزلت حاصل ہے۔ 9 مارچ 2007 کو پرویز مشرف کی صورت میں پاکستان کی فوجی ڈکٹیٹر شپ نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس افتخار چودھری کو برطرف کیا تو اعتزاز احسن نے اس
فیصلے کو چیلنج کیا۔ مسٹر جسٹس خلیل الرحمن رمدے کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 13 رکنی فل بینچ نے اس کیس کی سماعت کی اعتزاز احسن کے دلائل نے اپنا آپ منوا لیا اور معزز عدالت نے پرویز مشرف کے اقدام کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے چیف جسٹس کو بحال کردیا۔

3 نومبر 2007ء کو فوجی آمر پرویز مشرف کے “ہنگامی حالت” کے اعلان کے بعد آپ کو گرفتار کر لیا گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس دوران انہیں قید تنہائی اور بدترین تشدد سے گزارا گیا۔ نتیجتاً امریکی سینٹ کے 33 ارکان نے جنرل پرویز مشرف کو خط لکھا اور اعتزاز احسن کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں پوری دنیا میں عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

بعد میں گھر پر نظربند کر دیا۔ عید کے موقع پر تین دن کے لیے رہائی ملی، مگر اس مدت میں دوبارہ اسلام آباد جاتے ہوئے گرفتار کر لیا گیا۔کہا جاتا ہے کہ حراست کے کے دوران حکومت کی طرف سے انہیں پیش کش کی گئی کہ ججز کی بحالی کی تحریک سے الگ ہو جائیں تو انہیں رہا کیا جاسکتا ہے تاہم انہوں نے اس پیشکش کو پائے حقارت سے ٹھکرا دیا۔ 31 جنوری 2008ء کو آپ نظربندی توڑ کر باہر آ گئے جس کے بعد ان کے نظربندی کے احکامات واپس لے لیے گئے۔مگر پھر دوبارہ نظربند کر دیا گیا۔بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد آپ کا نام پیپلز پارٹی کی سربراہی کے لیے بہت سے حلقوں نے تجویز کیا مگر قیادت بینظیر کے بیٹے اور خاوند کو منتقل کر دی گئی۔

2008ء کے عام انتخابات میں انہوں نے حصہ لینے کا فیصلہ کیا تھا تاہم بعدازاں انہوں نے وکلا کے قومی کنویشن کی طرف سے انتخابی بائیکاٹ کے فیصلے کے بعد اپنے کاغذات نامزدگی واپس لے لیے۔ وکلا کا موقف تھا کہ مشرف کے زیر سایہ انتخابات جائز نہیں۔عتزاز احسن ہمہ پہلو شخصیت کے حامل ہیں۔ وہ سیاست دان کے علاوہ انسانی حقوق کے علمبردار بھی ہیں۔ وہ ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کے بانی اور نائب
صدر ہیں۔ متعدد عالمی اداروں نے ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں ایوارڈز سے نوازا گیا۔ وہ اکتوبر 2008 تک سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کی ذمہ داری بھی ادا کرتے رہے۔

ان کی کتاب ”سندھ ساگر اور قیام پاکستان” پہلے انگریزی اور پھر اردو میں شائع ہوئی۔ اسی طرح وہ ”ڈیوائیڈڈ بائی ڈیموکریسی ” میں لارڈ میگھنڈ ڈیسائی کے ساتھ شریک مصنف ہیں۔جنوری 2009ء میں مائع گیس کے بخشش کاروبار میں مال بنانے والوں کی فہرست جاری ہوئی جس میں آپ کا نام بھی شامل تھا۔’اعتزاز احسن نے سینیٹ کی سیٹ کی خاطر اپنا موقف تبدیل کر لیا یو ٹرن لے لیا۔۔۔زرداری اور گیلانی کی کرپشن کو تحفظ دینے کے لیے میدان میں آگئے این آر او کے مقدمے میں بھاری فیس حکومتی خزانے سے وصول کریںگے۔۔۔گویا اعتزاز احسن ایک قلابازیاں کھانے والا ،لالچی ،مالی مفاد اور عہدوں کے پیچھے بھاگنے والا ،بدعنوانیوں کو تحفظ دینے والا۔۔۔ بے اصول شخص وغیر ہ وغیرہ۔

2013میں اعتزاز احسن کہتے ہیں کہ آرٹیکل62,63 پر عمل ہوتا تو قائداعظم بھی پورا نہ اترتے محسن پاکستان قائداعظم کیخلاف زہر اگلنے کیلئے سیاست دانوں کی نہ جانے ڈوریاں کہاں سے ہلائی جاتی ہیں۔کم از کم اور کچھ نہیں تو پاکستان بنانے کا احسان ہی یاد کرلیا کریں۔ٹکے کی نوکری کے لالچ میں ہمارے سیاستدان محسن کشی پہ اْتر آتے ہیں۔پروین شاکر نے کہا تھا تہمت لگا کے ماں پہ جو دشمن سے داد لے ایسے سخن فروش کو مر جاناچاہئے پرویز مشرف کو جوتا مارنے پر بھی کچھ لوگوں کے پیٹوں میں مروڑ اٹھ رہے ہیں۔حالانکہ اس فطری ردعمل سے جابر اور آمر کی عقل ٹھکانے پر آگئی ہے اسے پتہ چل گیا ہے کہ پاکستان کے عوام رڈولف ہیس جو ہٹلر کا نائب تھا،کی طرح ان کی قبر کو بھی اکھاڑدیں گے نام ای سی ایل میں آچکا ہے اب بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔
اعتزاز احسن کہتے ہیں بلاول پر تنقید کرنے والے حمزہ اور مونس کو کیوں کچھ نہیں کہتے۔ جناب مونس اور حمزہ اپنے اپنے ابا جی سے لڑ کر بھاگتے تو نہیں دونوںکو اس بات کا علم ہے کہ ہمارے باپ ہمیں الیکشن میں قربانی کا بکرا نہیں بنائیں گے بلکہ آگے بڑھ کر دونوں الیکشن کمپیئن کا بوجھ اپنے اپنے کندھوں پر اٹھائیں گے.

بلاول پر آج تک کسی نے تنقید نہیں کی بلکہ اس کی فراست کو دیکھ کر سبھی اسے داد دے رہے ہیں۔پیپلز پارٹی کے پاس اس الیکشن میں بھٹو ہے نہ ہی کوئی بھٹو کی نشانی اس لئے پیپلز پارٹی والے الیکشن میں جماعت کا پتہ صاف ہوتے دیکھ کر گھبرا چکے ہیں۔اعتزاز احسن صبر کے دامن کو ہاتھ سے مت چھوڑیں،میدانِ سیاست میں گندے پوتڑے دھونے کا سلسلہ جاری ہے اور جاری رہیگا۔

Ghulam Murtaza Bajwa

Ghulam Murtaza Bajwa

تحریر : غلام مرتضیٰ باجوہ