احتسابی سراب اور مہنگائی کا عفریت

Accountability

Accountability

تحریر : یونس مسعود

جب سے ہوش سنبھالا ہے تب سے حکومت سرکاری خزانے کو خالی قرار دے کر اس کا ذمہ دار سابقہ حکومت کو قرار دیتی چلی آرہی ہے۔ یہ رونا بھی ہر دفعہ رویا جاتا ہے کہ ملکی معیشت کی تباہی کا ذمہ دار پچھلے دور حکومت میں لئے گئے غیر ملکی قرضے ہیں، اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ کہہ کر پچھلی حکومت سے زیادہ قرضہ بھی لے لیا جاتا ہے۔

جب سے قومی احتساب بیورو (نیب) کا قیام عمل میں آیا ہے تب سے یہ ادارہ پچھلی حکومت کے سینئر وزرا پر کرپشن کے الزامات لگا کر ان پر مختلف مقدمات بناتا ہے اور بعض اوقات گرفتار بھی کرتا ہے۔ اگر اسے عوامی دباؤ کچھ زیادہ محسوس ہو تو تھوڑی سی مدت کے لئے جیل بھی بھجوا دیتا ہے جس سے عوام خوشی کے شادیانے بجانے لگتے ہیں۔ حالانکہ جیل میں ایسے بڑے سیاست دانوں کو نوکر چاکر، میڈیا، گھر کا کھانا، ہمہ وقت متوجہ ڈاکٹر، بیڈ، صوفے، اے سی کی یخ بستہ ہوائیں اور وہ تمام سہولیات دی جاتی ہیں جن کا عام پاکستانی تصور بھی نہیں کر سکتا۔ جب یہ جیل کی لانڈری سے پاک و صاف ہو کر آتے ہیں تو یہ کہہ کر پاکستانیوں پر اپنا احسان جتلاتے ہیں کہ ہم نے جمہوریت کی خاطر جیلیں کاٹی ہیں۔

نیب کی چار بڑی خوبیاں ہیں، ایک یہ کہ اسے ہمیشہ اپوزیشن اراکین کی کرپشن نظر آتی ہے، حکومتی اراکین کی نہیں۔ دوسری یہ کہ یہ کسی بھی بڑے کیس کو منتقی انجام تک نہیں پہنچاتا۔ تیسری یہ کہ یہ ہمیشہ کرپشن کا پیسہ چھوٹی چھوٹی مچھلیوں سے برآمد کراتا ہے، بڑے مگرمچھوں سے نہیں۔ چوتھی یہ کہ یہ ان دنوں میں زیادہ فعال کردار ادا کرتا ہے جب حکومت پر کوئی نہ کوئی مشکل وقت آتا ہے جس کی بڑی مثال حالیہ بجٹ سے پہلے کی گرفتاریاں ہیں۔

ہمارے معاشی ماہرین کو قرض اتارنے اور ملک چلانے کے لئے صرف ایک ہی طریقہ آتا ہے، پچھلی حکومت کے آئی ایم ایف سے لیے گئے قرضوں کی بھرپور مذمت کرو، خود ان سے زیادہ قرضہ لو اور غریب عوام پر مزید ٹیکس لگا کر پہلے سے زیادہ مہنگائی کر دو۔ سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ جب کوئی مصنوعات تیار کرنے والی کمپنی سے حکومت مزید ٹیکس مانگتی ہے تو وہ اپنی مصنوعات کو اور زیادہ مہنگا بیچ کر سارا ٹیکس دوبارہ عوام سے وصول کرتی ہے، خود اپنے منافع سے ایک روپیہ بھی ٹیکس نہیں دیتی بلکہ جب کبھی حکومت مزید ٹیکس کا مطالبہ کرے تو اشیائے ضرورت کو حد سے زیادہ مہنگا کر کے اپنے سارے خسارے بھی بیچاری غریب عوام سے پورے کئے جاتے ہیں۔

ملکی قرضہ اتارنے کے نام پر غریب عوام پر مہنگائی کے بم گرا کر کہا جاتا ہے کہ آپ صبر کریں اور خوش ہوں کہ ملک کا قرض اتارا جا رہا ہے۔ یعنی عوام پہلے کرپٹ سیاستدانوں کے پیشہ لوٹنے پر صبر کرے پھر اس بات پر دوبارہ صبر کرے کہ سارا خسارا لٹیروں کی بجائے ان سے نکلوایا جائے۔ کیا کرپشن کا پیسہ کسی صورت میں واپس نہیں لایا جا سکتا؟ کیا وسائل سے مالا مال ایٹمی توانائی کے حامل ملک کی عوام ہر حکومت کے دور میں احتسابی ڈرامے کے نشے سے مدہوش ہو کر نئے ٹیکس اور مہنگائی کا طوفان برداشت کرے گی؟؟

Younus Masood

Younus Masood

تحریر : یونس مسعود