کیا افغانستان میں بھارت کی چال الٹی پڑ گئی؟

Narendra Modi

Narendra Modi

افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) انڈین آرمی کے ایک سابق جنرل کا کہنا ہے کہ بھارت امریکا کے حقیقی ارادوں، طالبان کی طاقت اور بدعنوان منتخب حکومت کی کمزوریوں کا صحیح اندازہ لگانے میں ناکام رہا جس کی وجہ سے خود ہی مشکل میں پھنس گیا ہے۔

انڈین آرمی میں 40 برس تک فوجی خدمات انجام دینے والے اور پرم ویر سیوا میڈل اور اتی وششٹ سیوا میڈل جیسے اعلٰی ترین اعزاز یافتہ ریٹائرڈ لفٹننٹ جنرل ایچ ایس پناگ کا کہنا ہے کہ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد بھارت جس الجھن اور پریشانی کا شکار ہوگیا ہے اس کی اہم وجہ اسٹریٹیجک متبادل کا فقدان نہیں بلکہ اس کی خوش فہمی اور بروقت صحیح فیصلہ نہ لینا ہے۔

شمالی کمان اور وسطی کمان کے جنرل آفیسر کمانڈنگ جیسے اہم عہدوں پر فائز رہ چکے جنرل پناگ نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے افغانستان کی موجودہ صورت حال کے حوالے سے یہ ”بھارت کی تاریخی انٹیلیجنس ناکامی ہے۔ بھارت امریکا کے حقیقی ارادوں، طالبان کی قوت اور ایک بدعنوان منتخب حکومت کی کمزوریوں کاصحیح اندازہ لگانے میں ناکام رہا۔ وہ ایک ایسی حکومت کی حمایت کرتا رہا جو طالبان کے ساتھ معاہدے کرنے اور خود اپنی فوج کی شکست کا منصوبہ تیار کرنے میں مصروف تھی۔ حتٰی کہ طالبان کے خلاف کھڑے ہونے کے لیے ہم شمالی اتحاد کے جن رہنماؤں پر بھروسہ کررہے تھے وہ بھی پاکستان چلے گئے اور جب طالبان کی پیش قدمی شروع ہوئی تو وہ ہمارے مفادات کو بچانے کے لیے سامنے نہیں آئے۔”

جنرل پناگ کے مطابق اس ناکامی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بھارت نے اپنی پوری اسٹریٹیجی افغانستان میں امریکا کی مسلسل موجودگی اور افغان حکومت کے استحکام کی بنیاد پر تیار کی تھی اور یہ انٹلیجنس کی ایک تاریخی ناکامی ہے۔

پاکستان اور چین کی سرحدوں پر نگاہ رکھنے والے شمالی کمان کے سابق اعلٰی فوجی افسر جنرل پناگ افغانستان میں پیدا صورت حال کے حوالے سے بھارتی رویے کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں ” کیا اتنا ہی کافی نہیں تھا۔ لیکن ہم نے جلد بازی کرتے ہوئے 17اگست کو کابل میں اپنا سفارت خانہ بھی بند کردیا اور ہزاروں شہریوں کو افغانستان میں یونہی چھوڑ دیا۔ جبکہ طالبان نے بھارتی سفارت کاروں کو حفاظت کی یقین دہانی کراتے ہوئے بھارت سے درخواست کی تھی کہ وہ اپنا سفارت خانہ نہ چھوڑیں۔”

جنرل پناگ کہتے ہیں کہ سفارت خانہ خالی کرنے کی بنیادی وجہ یہ بتائی گئی کہ لشکر طیبہ، جیش محمد اور حقانی نیٹ ورک کے دہشت گردانہ حملے ہوسکتے ہیں۔ جبکہ بھارت کو سمجھنا چاہیے تھا کہ اگر کسی سفارت خانے پر حملہ ہوتا ہے تو اس سے طالبان کا اقتدار کوئی صورت اختیار کرنے سے پہلے ہی اپنا جواز کھودے گا۔

لیفٹیننٹ جنرل پناگ کا خیال ہے کہ بھارت چاہتا تو طالبان کے ساتھ زیادہ بہتر سکیورٹی کے حوالے سے با ت چیت کرسکتا تھا۔ ” اگر ہمارا سفارت خانہ وہاں موجود رہتا تو اس سے نہ صرف طالبان کے ساتھ دوریاں ختم کرنے میں مدد ملتی بلکہ ہم اپنے شہریوں، ہندو اور سکھوں اور پناہ حاصل کرنے کے خواہش مند افغان دوستوں کے مفادات کی حفاظت بھی کرسکتے تھے۔”

جنرل پناگ کے مطابق بھارت نے کابل ہوائی اڈے پر صرف ایک سفارتی ٹیم رکھ چھوڑی ہے جو وہاں سے لوگوں کے انخلا کے سلسلے میں امریکی فورسز کی ماتحتی میں کام کررہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے عوامی طورپر یہ اعلان کرکے صورت حال مزید خراب کردی کہ بھارت ہندو اور سکھ افغان شہریوں کے انخلا کو ترجیح دے گا۔ ان کے بقول،” اس کی وجہ سے ہم نے اپنے افغان دوستوں کا اعتماد کھودیا۔”

جنرل پناگ کہتے ہیں کہ گو کہ بھارت کے پاس انتہائی تجربہ کار سفارت کاروں کی کمی نہیں ہے لیکن وہ دور اندیشی اور تدبر کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہے۔ وہ کہتے ہیں،

” ہمارے سفارت کار یہ سمجھ نہیں پائے کہ بھارت کو طالبان سے معاملہ کرنے میں قومی مفاد مدنظر رکھنا چاہیے تھا نہ کہ ان کے نظریات۔ جب ہمیں بہت سے اسلامی عرب ممالک، پاکستان اورایران جیسے ملکوں، جوشرعی قوانین کی اپنی تشریحات پر عمل کرتے ہیں، سے تعلق رکھنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ جب ہم آمراور کمیونسٹ حکومتوں کے ساتھ معاملات طے کرسکتے ہیں، جن کے انسانی حقوق کے ریکارڈ انتہائی خراب ہیں، حتٰی کہ خود اپنے اقلیتوں کے ساتھ ہمارا جو سلوک ہے اور انسانی حقوق کی صورت حال پر بین الاقوامی برادری کے جو اعتراضات ہیں، تو ہم طالبان کے ساتھ بات چیت کیوں نہیں کر سکتے۔”

جنرل پناگ کا کہنا ہے کہ افغانستان اور طالبان کے حوالے سے بھارت کی موجودہ پریشانی کا ایک اور سبب ہندوقوم پرست حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی آئیڈیالوجی یا نظریات ہیں۔ انہوں نے کہا ” یہ افسوس کی بات ہے کہ بی جے پی افغانستان کی صورت حال کا اپنی گھریلو سیاسی فائدے کے لیے استحصال کرنے سے بھی باز نہیں آئی۔ وزیر اعظم نریندر مودی کا سوم ناتھ مندر کی تقریب میں تقریر کرنا اتفاق ہوسکتا ہے لیکن انہوں نے اس موقع پر محمود غزنوی پر جس طرح بالواسطہ حملہ کیا وہ کہیں سے مناسب نہیں تھا۔”