’ہم افغانستان میں جو حاصل کرنا چاہتے تھے، وہ نہ کر پائے‘

Angela Merkel

Angela Merkel

جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) انگیلا میرکل نے گفتگو کرتے ہوئے افغانستان، موسمیاتی تبدیلیوں، مہاجرت کی پالیسی اور کورونا وبائی مرض کے موضوعات پر بات چیت کی۔

حسب معمول چہرے پر اطمینان اور مسکراہٹ لیے انگیلا میرکل نے برلن میں اپنے چانسلر دفتر میں بیٹھ کر ڈوئچے ویلے کے نیوز ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ماکس ہوفمان کو انٹرویو دیا۔ چانسلر شپ کے 16 سالہ دور کے اختتام پر انگیلا میرکل نے اپنے دو بڑے چیلنجز، اپنی مایوسیوں اور اپنے ممکنہ جانشین اولاف شوُلز کے بارے میں اپنے خیالات و جذبات کا اظہار کیا۔ اس موقع پر میرکل سے گزشتہ ماہ یعنی اکتوبر میں یورپی یونین کی انٹر نیشنل کانفرنس میں بطور یورپی لیڈر اپنی آخری شرکت کے موقع پر انہیں ” سمجھوتے کی ایک مشین‘‘ کہے جانے کے بارے میں ان کا خیال پوچھے جانے پر میرکل کا جواب تھا،” میں یقیناً کوئی مشین نہیں۔۔۔۔۔۔ ایک انسان ہوں۔ میں اس طرح کی بات چیت یا مباحثے میں ہمیشہ کشادہ ذہنی کیساتھ حصہ لیتی ہوں۔‘‘ میرکل کا اشارہ بین الاقوامی اجلاسوں میں ان کی پالیسی سازی کے نقطہ نظر کی طرف تھا۔ میرکل نے اس بارے میں بھی گفتگو کی کہ جب وہ کسی ایسے لیڈر سے بات چیت کر رہی ہوتی ہیں جو اپنی اقدار کے بارے میں کسی سے اپنے خیالات کو شیئر نہیں کرتا اور اپنی حد تک محدود رکھنا چاہتا ہے تو ان کا طریقہ کار یا حکمت عملی کیا ہوتی ہے؟ میرکل کا کہنا تھا،” ہمیں اس دنیا کے بارے میں بنیادی طور پر مختلف تصور رکھنے والوں کی بات بھی سننی چاہیے۔ اگر ہم ایک دوسرے کے خیالات نہیں جانیں گے اور ایک دوسرے کی بات سنیں گے ہی نہیں تو ہم کبھی بھی کسی بھی مسئلے کے حل تک نہیں پہنچیں گے۔‘‘

انگیلا میرکل نے جہاں ان چیزوں پر خاص طور پر زور دیتے ہوئے ان کا ذکر کیا جن پر وہ فخر محسوس کرتی ہیں، مثال کے طور پر جرمنی کا اپنے اتحادیوں کے ساتھ مضبوط تعلقات برقرار رکھنا اور کوئلے کے بطور ایندھن استعمال کو ترک کرنے کا سلسلہ شروع کرنا وغیرہ، وہاں میرکل نے ان امور پر بات کرنے میں بالکل ہچکچاہٹ کا اظہار نہیں کیا جن کے بارے میں ان کی خواہش تھی کہ وہ مختلف انداز میں رونما ہوتیں۔ میرکل نے ماحولیاتی تبدیلیوں اور ان سے پیدا ہونے والی تشویشناک صورتحال کے بارے میں جرمنی کی طرف سے کیے گئے اقدامات کی تعریف کرتے ہوئے کہا،” دوسرے ممالک کے مقابلے میں ہماری کارکردگی بہت بُری نہیں ہے۔‘‘ لیکن ہم یقیناً سرکردہ صنعتی ممالک میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ نت نئی ٹیکنالوجی اور سائنسی بصیرت کا حامل ہونے کے تئیں یہ ذمہ داری جرمنی پر عائد ہوتی ہے کہ وہ ایک مثال بن کر رہنمائی کرے۔‘‘

میرکل نے مزید کہا،” ہمیں سائنسی اندازوں پر دوبارہ سے دھیان دینا ہوگا، جس کا مطلب ہے زمینی حدت کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک برقرار رکھنا۔ گلاسگو منعقدہ عالمی ماحولیاتی کانفرنس کے متعدد نتائج سامنے آئے ہیں لیکن اس بارے میں نوجوانوں کا نقطہ نظر قابل فہم ہے جس کے مطابق یہ سلسلہ اب بھی بہت سست روی سے چل رہا ہے۔‘‘

میرکل کا کہنا تھا،” اکثر مباحثوں میں پوچھا کرتی تھی کہ وردی میں ملبوس ہماری خواتین اور مردوں کی افغانستان میں تعیناتی کے باوجود اتنی بڑی تعداد میں افغان مرد کیوں بیرون ملک جانا چاہتے ہیں؟ بہر حال ہمیں اس حقیقت کو تسیلم کرنا ہوگا کہ ہم افغانستان میں وہ نظم و ضبط نہ لا سکے جسے ہم وہاں دیکھنا چاہتے تھے۔‘‘ تاہم میرکل کا کہنا تھا،” اس کا قصوروار تنہا جرمنی نہیں ہے۔ افغان بھی اپنا کردار ادا کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ یہ اتنہائی افسوسناک امر ہے۔‘‘

میرکل سے جب یہ پوچھا گیا کہ جرمنی کی لیڈر کے طور پر انہیں کن مشکل ترین چیلنجز کا سامنا رہا؟ تو ان کا جواب تھا،” دو ایونٹس یا واقعات جو مجھے ذاتی طور پر بہت ہی چیلنجنگ لگے وہ تھے، 2015 ء میں جرمنی کی طرف اتنی بڑی تعداد میں مہاجرین کی آمد۔ میں بذات خود اسے کبھی ایک بحران کہنا پسند نہیں کرتی، کیونکہ سب انسان ہیں۔ تو پہلی چیز یہ کہ ہمارے اوپر شام اور اس کے پڑوسی ملک سے فرار ہونے والوں کا بہت زیادہ دباؤ تھا اور دوسرا چیلنج کووڈ انیس کی وبا ہے۔ شاید یہ وہ بحران تھے جس میں ہم نے واضح طور پر انسانوں کو براہ راست متاثر ہوتے دیکھا جس سے انسانی جانوں سے متعلق توازن کا سوال پیدا ہو گیا۔ میرے لیے یہ سب سے بڑے چیلنجز تھے۔‘‘

انگیلا میرکل نے کہا ہے کہ یورپی یونین کو اب بھی پناہ گزینوں کی بہتر طور پر مدد کرنے کے لیے ، پناہ اور ہجرت کے مسائل سے نمٹنے کے لیے ایک ”مشترکہ نظام‘‘ کی تشکیل کی ضرورت ہے۔ جن ممالک سے پناہ گزین یورپ آتے ہیں اور یورپ کے اندر جن ممالک میں وہ سب سے پہلے پہنچتے ہیں ان کے درمیان ایک ” خود ساختہ توازن‘‘ قائم کرنا ضروری ہے۔ میرکل کا کہنا تھا،” پناہ گزینوں کی بہتر طریقے سے مدد کے لیے ہجرت اور فرار کی بنیادی وجوہات کے خلاف جنگ کی جانا چاہیے۔‘‘

2015 ء میں جب جرمنی کو پناہ گزینوں کے سیلاب کا سامنا تھا تب میرکل کا ایک قول بہت مشہور ہوا تھا۔ میرکل نے کہا تھا،” ہم یہ کر سکتے ہیں۔‘‘ کیا جرمنی وہ سب کچھ کر سکا جس کی میرکل امید کر رہی تھیں؟ اس کے جواب میں میرکل نے اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ سب کچھ قطعاً ویسا نہ ہو سکا جیسا کہ ہونا چاہیے تھا۔ لیکن میرکل اس کو جرمنی کی ایک بڑی کامیابی سمجھتی ہیں کہ جرمنی نے اتنی بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کو قبول کیا۔ ان میں سے بہت سوں کو جرمنی میں مستقل قیام اور روزگار بھی میسر ہے۔

میرکل کہتی ہیں،” جی ہاں ہم نے یہ کیا۔ ہم سے میری مراد جرمنی میں بڑی تعداد میں جرمن باشندوں نے پناہ گزینوں کی امداد میں موثر کردار ادا کیا، ان کو رہائش اور روزگار فراہم کرنے کے عمل میں بہت مدد کی۔ بہت سے شہروں کے میئرز نے، بہت سے رضاکاروں نے بہت مدد کی اور بہت سے افراد اب بھی اپنے نئے دوستوں، پڑوسیوں اور ساتھی کارکنوں کی بھرپور مدد اور ان کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔‘‘

انگیلا میرکل نے اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ روم منعقدہ حالیہ G20 اجلاس میں اپنے ممکنہ جانشین، سوشل ڈیموکریٹ لیڈر اولاف شُلز کے اپنے ساتھ مکمل تعاون اور اتحاد کی یقین دہانی کے بارے میں کہا،” یہ میری جانب سے کوئی بہت بڑا فراخ دلانہ اقدام نہیں تھا۔‘‘

میرکل کے وزیر مالیات کے طور پر انہیں اجلاس میں شرکت کرنا ہی تھی۔ بہرحال میرکل بند کمروں کے اجلاس میں شُلز کو ہم آہنگی اور تسلسل کی علامت کے طور پر لے گئیں۔ شُلز کا تعلق بائیں بازو کی سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی سے ہے تاہم میرکل نے مستقبل کے ممکنہ چانسلر شُلز پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا۔ اس بارے میں میرکل نے کہا،” میرے خیال میں شُلز کے لیے تمام دو طرفہ بات چیت میں حصہ لینے کا موقع ایک اہم اشارہ تھا۔

میرکل نے کہا کہ وہ یہ تاثر چھوڑنا چاہتی تھیں کہ اس وقت کے چانسلر اور مستقبل کے ممکنہ چانسلر کے مابین کام کر نے کے مثبت ، اچھے تعلقات پائے جاتے ہیں۔ میرکل کے بقول،” موجودہ ہنگامہ خیز دور میں اس یقین دہانی کا اشارہ دینا درست عمل ہے۔‘‘