تحریر: مہر بشارت صدیقی فاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقیات احسن اقبال نے واضح کیا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری روٹ میں ایک انچ کی تبدیلی نہیں کی گئی، توانائی کے بحران کی وجہ سے ہم جی ڈی پی کی دو سے تین فیصد ترقی سے محروم رہ جاتے ہیں، راہداری منصوبے سے کسی ایک صوبے یا علاقے نہیں پورے ملک کو فائدہ ہو گا، وفاقی حکومت نے میٹرو بس منصوبے اور لاہور میں اورنج لائن ٹرین کے منصوبے کے لئے ایک پیسہ بھی نہیں دیا، دیگر صوبے بھی ایسے منصوبے شروع کریں، ہم مکمل معاونت کریں گے۔
ایوان بالا کے اجلاس میں سینیٹر سعید الحسن مندوخیل، سینیٹر فرحت اللہ بابر اور دائود خان اچکزئی کی تحریک اور توجہ مبذول نوٹس کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا کہ پاکستان کی ترقی کی کہانی کے بہت سے پہلو ہیں، یہ ناخوشگوار پہلو ہے کہ ہم متعدد بیس مس کر رہے ہیں، 1960ء کی دہانی میں پاکستان کی برآمدات 200 ملین ڈالر اور کوریا کی 100 ملین ڈالر تھیں جس کوریا کی ہم مدد کرتے تھے آج وہ 561 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے اور ہماری برآمدات 25 ارب ڈالر ہیں، اسی طرح ملائیشیاء کے لوگ کہا کرتے تھے کہ پاکستان ہمارے لئے رول ماڈل ہے، آج ہم ملائیشیاء کو رول ماڈل سمجھتے ہیں۔
ان تمام ممالک نے سیاسی استحکام اور معاشی اقدامات کی وجہ سے خوشحالی حاصل کی، پاک چین اقتصادی راہداری پاکستان کے لئے ترقی کا ایک موقع ہے، پاکستان جسے پہلے دہشت گردی کے واقعات کے حوالے سے جانا جاتا تھا، آج دنیا بھر میں اسے سرمایہ کاری کے لئے محفوظ ترین ملک قرار دیا جا رہا ہے اور اسے چین کی 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا محافظ قرار دیا جا رہا ہے، وقت گزار دیا تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ جتنی باتیں ہم سن رہے ہیں وہ شاید معلومات کی کمی کا نتیجہ ہیں۔ 5 جولائی 2013ء کو پاک چین اقتصادی راہداری کی مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کئے، راہداری منصبوے کے روڈ میں ایک انچ کی تبدیلی نہیں کی گئی، گوادر پورٹ کے ذریعے بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے تمام علاقے دنیا کے ساتھ مل سکیں گے، دوسرا حصہ اس کا توانائی کا منصوبہ ہے جب تک توانائی کا مسئلہ حل نہیں ہو گا، ہماری معیشت ترقی نہیں کر سکتی۔
Pakistan-China Economic Corridor
توانائی کے بحران کی وجہ سے ہم جی ڈی پی کی 2 سے 3 فیصد ترقی سے ہم محروم رہ جاتے ہیں، راہداری منصوبے کے تحت 16 ہزار 400 منصوبوں کی نشاندہی کی گئی، پہلے مرحلے میں 10 ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی حاصل ہو گی، تیسرا حصہ بنیادی ڈھانچے کی ترقی ہے جس میں ریلوے لنک اور سڑکوں کی تعمیر کی جائے گی، چوتھا حصہ صنعتی ترقی کا ہے جس کے تحت انڈسٹریل پارکس اور صنعتی زونز قائم کئے جائیں گے۔ پاک چین اقتصادی راہدری سے کسی ایک صوبے یا علاقے کا نہیں خیبرپختونخوا، بلوچستان، کشمیر اور گلگت بلتستان سمیت پورے ملک کا فائدہ ہو گا۔ ہر دور میں حکومت نے چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو مضبوط بنانے کے لئے کام کیا، ہمارے تعلقات کسی حکومت تک محدود نہٰں بلکہ یہ دونوں ممالک کے عوام کی دوستی ہے۔ سیاسی لحاظ سے ہمارے تعلقات مثالی تھے لیکن اقتصادی تعلقات کمزور تھے، موجودہ حکومت کا وژن ہے کہ مضبوط پاکستان کے لئے مضبوط معیشت ضروری ہے، پاک چین دوستی کو جغرافیائی سیاسی تعلقات سے جغرافیائی معاشی تعلقات کی طرف منتقل کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں کہا گیا کہ چین کے صدر پاکستان کو مہنگے قرضے دینے آ رہے ہیں، ایسے غیر ذمہ دارانہ بیانات سے گریز کیا جانا چاہیے۔ 37 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری چین کی کمپنیاں اپنے فنڈز سے کر رہے ہیں اور اس پالیسی کے تحت کوئی بھی بجلی گھر لگا سکتا ہے، حکومت پاکستان اس سے بجلی کی خریداری کا معاہدہ کرے گی۔
ہر شخص جانتا ہے کہ پن بجلی کے منصوبے دو اڑھائی سال میں مکمل نہیں ہوتے اس لئے ہم ان منصوبوں کا کریڈٹ لینے کے خواہاں نہیں ہیں، کروٹ میں 800 میگاواٹ اور سکی کناری کے 870 میگاواٹ کے منصوبے شاید 2018ء تک مکمل نہیں ہو سکیں گے، بعد میں مکمل ہوں گے، بلوچستان میں آمریت کے دور میں نفرت کے بیج بوئے گئے جس سے صوبے کے حالات خراب ہوئے، بلوچستان میں ایف ڈبلیو او کے 20 جوان اب تک جام شہادت نوش کر چکے ہیں، ہم ان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں، کچھ عناصر نہیں چاہتے کہ بلوچستان میں ترقی آئے۔ ہمیں مزاحمت کا سامنا ہے لیکن گوادر کو کوئٹہ سے ملانے کا کام مکمل کریں گے، 2016ء تک اس منصوبے کو ہر صورت میں مکمل کیا جائے گا، گوادر رتو ڈیرو روڈ، قراقرم ہائی وے پر حویلیاں سے تھاکوٹ کا حصہ پہلے بنایا جائے گا، چین منصوبے پر مرحلہ وار کام کرنے کا خواہاں ہے۔ کراچی لاہور پشاور موٹروے کی وجہ سے شاید غلط فہمی پیدا ہوئی ہے، موٹروے منصوبے 1990-91ء سے شروع ہے لیکن سیاسی حالات کی وجہ سے اس کو پہلے مکمل نہیں کیا جا سکتا تھا، 2018ء تک کراچی پشاور موٹروے منصوبے مکمل کر لیا جائے گا۔
Power Project
لاہور میں اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کا حصہ نہیں ہے، یہ پنجاب حکومت کا اپنا منصوبہ ہے جس طریقے سے میٹرو بس منصوبہ کو پنجاب کے وسائل سے بنایا گیا ہے یہ اسی طرح کا منصوبہ ہے، وفاقی حکومت نے میٹرو بس اور اورنج لائن ٹرین منصوبہ کے لئے ایک پیسہ بھی نہیں دیا، یہ منصوبے حکومت پنجاب اپنے وسائل سے بنا رہی ہے، ہم امید کرتے ہیں کہ جس طرح وزیر اعلیٰ پنجاب نے میٹرو بس منصوبہ شروع کیا ہے دیگر صوبے بھی ایسے منصوبے مکمل کریں گے، خیبرپختونخوا حکومت نے بھی میٹرو بس منصوبے کے لئے ایشیائی ترقیاتی بینک سے فنڈز حاصل کرنے کے لئے ہم سے رجوع کیا ہے، ہم اس میں پورا تعاون کریں گے، کراچی میں بھی اسی طرح کا منصوبہ شروع کیا جا رہا ہے، وفاقی حکومت ہر طرح کا تعاون کر رہی ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت 9410، سندھ میں 10250، بلوچستان میں پہلے مرحلے میں 2720 اور دوسرے مرحلے میں 6600، پنجاب میں پہلے مرحلے میں 5020 اور دوسرے مرحلے میں 2600، گلگت بلتستان میں 11970 اور آزاد کشمیر میں 4 ہزار میگاواٹ کے منصوبے مکمل کئے جائیں گے۔سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ چین کی طرف سے 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری دنیا کے لئے ایک پیغام ہے کہ پاکستان سرمایہ کاری کے لئے محفوظ ترین مقام ہے، پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ ملک کی تقدیر بدلے گا۔ اقتصادی راہداری کے روٹ کی تبدیلی کے معاملے پر خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے عوام کے تحفظات دور کئے جانے چاہئیں، دہشت گردی اور بد امنی کا حل معاشی خوشحالی اور تعلیم کا فروغ ہے جب تک ان صوبوں میں غربت اور جہالت ہے حالات بہتر نہیں ہوں گے۔ سینیٹر ستارہ ایاز نے کہا کہ پاک چین راہداری منصوبہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی پسماندگی دور کرنے کے لئے بہت اہم ہے، چین بھی اپنے ان علاقوں کو اس منصوبے کے ذریعے ترقی دینا چاہتا ہے جو کم ترقی یافتہ ہیں۔
ہمارا مطالبہ ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کا روٹ تبدیل نہ کیا جائے اور اسے اصل روٹ کے مطابق مکمل کیا جائے۔ سینیٹر سعید الحسن مندوخیل نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کی تکمیل سے علاقے میں ترقی ہو گی لیکن اس کے روٹ کی تبدیلی ہمیں منظور نہیں ہے۔ سینیٹر دائود اچکزئی نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ اصل روٹ کے مطابق مکمل کیا جائے۔ سینیٹر نسیمہ احسان نے کہا کہ جن علاقوں سے پاک چین اقتصادی راہداری کا روٹ گزرنا ہے وہ ملک کے پسماندہ ترین علاقے ہیں، بلوچ پہلے ہی بہت سے مسائل کا شکار ہیں، ہمارے مسائل حل ہونے چاہئیں۔ سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ پاکستان کا منصوبہ ہے اس سے تمام علاقوں کو فائدہ ہو گا اور ملک کی تقدیر بدلے گی، سینیٹر سیف اللہ مگسی نے کہا ہے کہ چین کی طرف سے پاکستان میں 45 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ایک بہت بڑی سرمایہ کاری ہے، اس کا فائدہ بلوچستان اور بالخصوص گوادر کے عوام کو پہنچنا چاہیے، روٹ میں تبدیلی کی کسی بھی کوشش کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ سینیٹر الیاس بلور نے کہا کہ ہم وفاق کو مضبوط بنانے کے خواہاں ہیں، حکومت پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے روٹ میں تبدیلی نہ کرے ا سے چھوٹے صوبوں کا احساس محرومی بڑھے گا۔