امریکا میں جو بھی جیتے، ایران کی امریکی پالیسی تبدیل نہیں ہو گی: خامنہ ای

Ali Khamenei

Ali Khamenei

ایران (اصل میڈیا ڈیسک) ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ امریکا کے صدارتی انتخابات کے نتائج خواہ جو بھی سامنے آئیں لیکن واشنگٹن کے تئیں تہران کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں ہو گی۔

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے منگل کے روز کہا کہ امریکی صدارتی انتخابات کے نتائج آنے کے بعد بھی امریکا کے متعلق ایرانی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں ہو گی۔ انہوں نے کہا، ”امریکا کے حوالے سے ہماری پالیسی بالکل طے ہے اور افراد کے آنے یا جانے سے اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو گی۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون آتا ہے اور کون جاتا ہے۔”

خامنہ ای تہران میں امریکی سفارت خانے پر 1979 میں طلبہ کے ذریعہ قبضہ کی سالگرہ کے موقع پر خطاب کر رہے تھے۔ سرکاری ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے خطاب میں ایرانی رہنما نے کہا کہ ایران کبھی بھی امریکا کے دباؤ میں نہیں آئے گا۔

تہران میں امریکی سفارت خانے پر قبضے کی تعریف کرتے ہوئے آیت اللہ خامنہ ای نے کہا ”جاسوسی کے اس اڈے پر طلبہ کا یہ حملہ نہایت مناسب اور دانش مندانہ فیصلہ تھا۔”

خیال رہے کہ ایرانی طلبہ نے امریکی سفارت خانہ پر قبضہ کر کے اس کے 52 ملازمین کو یرغمال بنا لیا تھا اور 444 دنوں کے بعد یہ سفارتی تعطل ختم ہو سکا تھا۔ اس واقعے کے بعد سے ہی امریکا اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات منقطع ہیں۔

آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی تقریرمیں مزید کہا،”امریکا نے افغانستان،عراق، شام، یمن، فلسطین اور دیگر اسلامی ممالک میں مداخلت کر کے ہزاروں مسلمانوں کو قتل کیا، امریکا انسانوں اور انسانیت کا دشمن ہے۔”

امریکی سفارت خانے پر ایرانی طلبہ کے قبضے کی یاد میں ہرسال بڑے پیمانے پر جلوس کا انعقاد ہوتا ہے تاہم کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے اس مرتبہ جلوس اور دیگر پروگرام منسوخ کردیے گئے۔ خیال رہے کہ مشرق وسطی میں ایران کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ وہاں اب تک تقریباً 36000 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

امریکی صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار جوبائیڈن نے انتخابی جلسوں کے دوران وعدہ کیا ہے کہ اگر وہ صدر کے عہدے پر فائز ہوتے ہیں تو ایران کے ساتھ سن2015 کے نیوکلیائی معاہدے میں شامل ہو جائیں گے۔

ایران کی جوہری سرگرمیوں کو محدود رکھنے کے لیے دنیا کی چھ بڑی طاقتوں اور ایران کے درمیان یہ معاہدہ ہوا تھا۔ لیکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018ء میں اس معاہدے سے امریکا کو الگ کرلیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت ایران کی طرف سے اپنی جوہری سرگرمیوں کو محدود کرنے کے بدلے میں اس کے خلاف عائد بین الاقوامی مالیاتی پابندیاں میں کچھ نرمی کی گئی تھی۔

ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے امریکی میڈیا نیٹ ورک سی بی ایس سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ایران چاہتا ہے کہ امریکا معاہدے میں دوبارہ شامل ہو جائے لیکن ‘دوبارہ شامل ہونے کا مطلب دوبارہ مذاکرات نہیں ہیں کیوں کہ اگر ہم ایسا (دوبارہ بات چیت) چاہتے تو ہم نے چار سال قبل ہی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ایسا کرلیا ہوتا۔‘

جواد ظریف کا کہنا تھا، ”بائیڈن کے بیانات زیادہ حوصلہ افزا ہیں لیکن ہم ابھی انتظار کریں گے اور دیکھیں گے۔”

ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ ایک وسیع تر معاہدہ کرنا چاہتے ہیں جس میں ایران کے میزائل پروگرام اورعلاقائی سرگرمیوں کا احاطہ کیا گیا ہو تاہم ایران نے اس وقت تک اس طرح کی کسی بھی بات چیت کے امکان کو مسترد کردیا ہے جب تک کہ واشنگٹن سابقہ معاہدے پر واپس نہیں لوٹ آتا ہے۔