امریکی نوجوان نے طویل سفر کر کے محبوبہ کے لیے ہیرا ڈھونڈ نکالا

Diamond

Diamond

آرکنساس: اگر فرہاد نے شیریں کے لیے دودھ کی نہر نکالی تھی تو آج کے محبت کرنے والے بھی کسی سے کم نہیں۔ ایک امریکی نوجوان نے اپنی ہونے والی منگیتر کے لیے ملک ک طول وعرض میں سفر کر کے منگنی کی انگھوٹی کا ہیرا خود تلاش کیا ہے۔

کرسچیان لائڈن جب مڈل اسکول میں تھے تو ان کے دل میں خواہش جاگی کہ وہ اپنی جیون ساتھی کے لیے جو انگوٹھی بنائیں ، اس میں جڑنے کے لیے ہیرا خود تلاش کریں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ میں بعض مقامات ایسے ہیں جہاں آپ معمولی رقم ادا کرکے اپنی قسمت آزما سکتے ہیں۔ لیکن یہ کام آسان نہیں ہوتا۔

تین سال قبل اسے آرکنساس میں کریٹرآف ڈائمنڈ اسٹیٹ پارک کا علم ہوا تو امید پیدا ہوئی کہ شاید کامیابی مل جائے گی۔ اسی لمحے انہوں نے ہیروں پر تحقیق شروع کردی اور اس پارک میں کامیابی سے ہیرے ڈھونڈنے کے لیے ویڈیو دیکھنا شروع کردی۔ اپنے سفر سے پہلے انہوں نے تمام معلومات جمع کی اور اپنے دوست جوش کے ساتھ آرکنساس پارک جاپہنچے۔
اس نے اپنی محبوبہ کو سیر سپاٹے کا کہہ کر آرکنساس پارک کا سفر شروع کیا۔ اس سفر میں کرسچیان نے تمام ضروری آلات بھی ساتھ رکھے۔ ان کا سفر یکم مئی کو شروع ہوا جہاں پہلے وہ مونٹانا میں رکے۔ اس جگہ بھی لوگ قیمتی پتھر تلاش کرتے ہیں جن میں نیلم سب سے زیادہ ملتا ہے۔ یہاں انہیں ایک چھوٹا نیلم مل گیا۔

اس کے بعد ایک دن انہوں نے یلو اسٹون پارک میں گزارا اور سات مئی کو آرکنساس پہنچے جہاں ہیرا ڈھونڈنا اتنا ہی مشکل ہے کہ گویا بھوسے کے ڈھیرمیں سوئی تلاش کرنا۔ دو دن تک انہیں کچھ نہ ملا اور بہت بڑے حصے کی خاک چھانی جاچکی تھی۔ لیکن تیسرے دن انہوں نے زمین کی اوپری سطح کو دیکھنا شروع کیا۔ اس دوران وہ مٹی کے دو بڑے ڈبے بھر چکے تھے اور رات کو انہیں چھان کر دیکھ رہے تھے۔

دونوں دوست خوشی سے جھوم اٹھے اور فوری طور پر اسے حفاظتی بیگ میں رکھا ۔ اس کامیابی پرکرسچیان نے کہا کہ وہ ایک چھوٹے ہیرے پر ہی قناعت کا ذہن بناچکے تھے لیکن یہ پیلا ہیرا قیمتی اور غیرمعمولی جسامت کا حامل ہے۔

پارک کی انتظامیہ نے ہیرے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ یہ گزشتہ برس اکتوبر کے بعد تلاش کیا جانے والا سب سے بڑا ہیرا ہے جو سوادوقیراط کے قریب ہے۔ پارک انتظامیہ نے اس کی خبرنشر کی اور اسے ویب سائٹ پر بھی جگہ دی ہے۔

اپنے گھر پہنچ کر کرسچیان نے ہیرا اپنی منگیتر کو دکھایا اور شادی کی پیشکش کی تو اس نے ہاں کر دی۔ اب وہ کسی جوہری کی تلاش میں ہیں جو اس ہیرے کو عمدگی سے تراش کر ایک انگوٹھی میں لگا سکے۔