عرب تیل کی طاقت اور عالمی منڈی کے عروج و زوال کا مرکزی کردار کون تھا؟

Ahmed Zaki Yamani

Ahmed Zaki Yamani

سعودی عرب (اصل میڈیا ڈیسک) سعودی عرب کے شیخ ذکی یمانی جنہیں عرب پٹرولیم کے عروج کی علامت سمجھا جاتا تھا، 91 برس کی عمر میں لندن میں انتقال کر گئے۔ 1973ء کے ’آئل ایمبارگو‘ میں ان کا مرکزی کردار رہا ہے۔ جس نے مغربی ممالک کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا تھا۔

سعودی ریاستی میڈیا کی خبروں کے مطابق شیخ ذکی الیمانی کا انتقال منگل کو لندن میں ہوا۔ روئٹرز نے ان کے بارے میں اپنے ایک فیچر میں لکھا ہے کہ یمانی کی شخصیت غیر معمولی اہمیت کی حامل ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت دلچسپ بھی تھی۔ وہ 1975ء میں سعودی عرب کے شاہ فیصل کے قتل کے گواہ بھی تھے۔ شاہ فیصل نے ہی شاہی خاندان سے تعلق نہ رکھنے والے ذکی یمانی کو تیل کے امور کا وزیر مقرر کیا تھا۔ شاہ فیصل کا جس سال قتل ہوا اُسی سال یمانی کو اوپیک کے ایک اجلاس کے دوران الیچ رامیریز سانچیز، جو ‘کارلوس جیکل‘ کے نام سے مشہور تھا، نے اغوا کر لیا تھا۔

روئٹرز شیخ ذکی یمانی کے بارے میں لکھتا ہے کہ وہ ایک وجیہ شخصیت کے مالک تھے اور مخصوص ‘داڑھی‘ ان کا ٹریڈ مارک سمجھا جاتا تھا۔ انہیں دنیا میں خام تیل پیدا کرنے والے سب سے بڑے ملک، سعودی عرب کی تیل کی وزارت کا کرتا دھرتا ہونے کا شرف بھی حاصل تھا۔ وہ 24 برس تک سعودی عرب کے تیل کے امور کے وزیر رہے۔ خاص طور سے 70 کے عشرے میں جس وقت تیل کی وجہ سے پوری دنیا مہنگائی کی لپیٹ میں تھی اور ‘آئل شاک‘ سے گزر رہی تھی، اُس وقت شیخ ذکی یمانی عالمی سطح پر ‘سیلبرٹی‘ بن گئے تھے۔ 1986ء میں انہیں اس وزارت سے برطرف کر دیا گیا تھا۔ اس اقدام کی وجہ تیل کی پالیسی سے متعلق ذکی یمانی کی ایک ناکام حکمت عملی تھی، جس کے سعودی تیل کی سیاست پر آج تک منفی اثرات پائے جاتے ہیں۔ ذکی نے ایک نہایت حساس وقت میں خام تیل کی قیمتوں میں اضافے کی جو حکمت عملی بنائی اُس سے سعودی عرب کو نقصان پہنچا۔

دسمبر 1975ء میں پٹرولیم برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم ‘اوپیک‘ کا اجلاس یورپی ملک آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس کا اختتام فائرنگ اور ہنگامہ آرائی پر ہوا۔ وینیزویلا سے تعلق رکھنے والے ‘ کارلوس جیکل‘ اور اُس کے پانچ ساتھیوں نے میٹنگ کے دوران فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں تین راہ گیر ہلاک ہو گئے۔ کارلوس ‘فلسطینی مقاصد‘ کا حامی تھا اور انہیں فروغ دینے کے لیے اُس نے ذکی یمانی کو بطور اہم یرغمال اپنے قبضے میں لیا اور انہیں بار بار بتاتا رہا کہ اُنہیں موت کی سزا سنائی گئی ہے۔ ذکی کے ساتھ اوپیک کے دیگر وزراء بھی دو روز تک ایک ایسے کمرے میں بند رہے، جس میں بارود نصب کیا گیا تھا۔ یہ لوگ اس وقت تک یرغمال رہے جب تک اغوا کاروں کو مغویوں کے ساتھ آسٹریا سے نکل جانے کے لیے ایک ہوائی جہاز فراہم نہ کیا گیا۔

کہتے ہیں کہ مغویوں نے الجیریا سے لیبیا اور پھر واپس الجیریا کی اس فلائٹ پر مزید 43 گھنٹے شدید اذیت میں گزارے۔ تاہم اس دوران اغوا کار اور مغویوں نے کافی بات چیت کی اور ان کے مابین کچھ قربت پیدا ہو گئی۔ جیسا کہ شیخ ذکی یمانی نے اپنے ایک سوانح نگار جیفری روبنسن کو بتایا تھا،” یہ عجیب موقع تھا لیکن جب ہم ساتھ بیٹھے اور ہم نے ایک دوسرے سے بات چیت کی تو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ہم ایک دوسرے کے دوست بن گئے تھے۔ وہ مجھے اتنا کچھ بتا رہا تھا، یہ جانتے ہوئے کہ میں مر جاؤں گا۔‘‘

آخر کار الجزائر میں ایک معاہدہ طے پایا اور کارلوس وہاں سے فرار ہو گیا۔ اس کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے گئے تھے تب بھی وہ 1994ء تک مفرور رہا۔

اوپیک ممالک کے ویانا میں ہونے والے اجلاس سے چند ماہ قبل ریاض میں شاہ فیصل ایک وفد کا استقبال کر رہے تھے اور اُس وقت شیخ ذکی یمانی اُن کے ساتھ ہی تھے کہ اُن کے سوتیلے بھائی کے ایک بیٹے یعنی ایک سعودی شہزادے نے ریوالور نکال کر شاہ فیصل پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی اور وہ ہلاک ہو گئے۔

ایک عام انسان کی حیثیت سے ذکی یمانی کا کیریئر قابل ذکر تھا۔ ایک ایسے معاشرے میں جو مکمل طور پر شاہی خاندان کے اثر میں ہے، اپنے کیریئر میں اتنے عروج کو پہنچنا یقیناً غیر معمولی بات تھی۔

شیخ ذکی یمانی 30 جون 1930ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد شہر مکہ کے ایک اسلامی اسکالر اور جج تھے۔ یمنی سے توقع کی جا رہی تھی کہ وہ اپنے دادا اور والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے درس و تدریس کا پیشہ اختیار کریں گے۔ ذکی یمانی نے قاہرہ یونیورسٹی سے قانون کی تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں نیو یارک اور ہارورڈ یونیورسٹی سے اعلیٰ تعیلم حاصل کر کے وہ سعودی عرب واپس لوٹے جہاں انہوں نے لاء کی ایک فرم قائم کی اور سرکاری کام بھی انجام دینے لگے۔ اُس وقت کے سعودی بادشاہ فیصل کی توجہ ذکی پر مبذول ہوئی اور انہوں نے 1962ء میں ذکی یمانی کو وزیر تعیلم مقرر کر دیا۔

اوپیک تنظیم کی ترقی میں ذکی کا نہایت اہم کردار رہا جو 1960ء میں بنی تھی۔ ذکی نے سعودی تیل کی صنعت کو امریکی کمپنیوں کی گرفت سے نکالنے کے لیے متعدد سلسہ وار اقدامات پر کام کیا۔ اس کے نتیجے میں 1976ء میں آرامکو کو سعودی عرب کی قومی ملکیت بنانے سے متعلق ایک معاہدہ طے پایا۔ اثاثوں کے اعتبار سے آرامکو دنیا کی آمیر ترین کمپنیوں میں شامل ہے۔

ذکی یمانی کے سعودی عرب کے وزیر برائے تیل کے امور بننے کے ابتدائی سالوں میں ‘عرب نیشنلزم‘ اپنے زوروں پر تھی۔1967ء میں ہونے والی چھ روزہ عرب۔اسرائیل جنگ کے وقت ریاض اپنی اقتصادی پالیسیوں میں نرمی کے لیے تیار تھا۔ ذکی یمانی نے اسرائیل کے حلیف ممالک کے لیے تیل کی سپلائی پر پابندی کا اعلان کر دیا تاہم اس سے پیدا ہونے والے خلا کو وینیزویلا اور انقلاب سے قبل کے ایران کی طرف سے تیل کی اضافی فراہمی نے پُر کر دیا۔

شاہ فیصل نے پاکستان کے ساتھ بھی اپنے تعلقات بہت استوار کیے تھے۔

1973ء میں چوتھے عرب اسرائیل تنازعے نے سعودی تیل کے وزیر ذکی یمانی کو تیل پر ایک اور امبارگو لگانے کے لیے متحرک کر دیا۔ اس بار خام تیل کی قیمتوں میں چار گُنا اضافہ کیا گیا، جس سے اوپیک کو شدید دھچکا لگا اور مغربی طاقتیں افراط زر کی وجہ سے شدید کساد بازاری کا شکار ہو گئیں۔ اس صورتحال کو ‘اولین آئل شاک‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

1979ء کا ایران کا اسلامی انقلاب مغربی دنیا کے لیے ‘دوسرے آئل شاک‘ کا سبب بنا۔ اوپیک ممالک میں تیل کی قیمتیں بہت زیادہ بڑھ گئیں۔ اُس وقت ریاض واشنگٹن کے کافی قریب آ چکا تھا۔ واشنگٹن نے ریاض سے تیل کی قیمتوں کو سرکاری سطح پر رکھنے کا کہا تاکہ تیل درآمد کرنے والے ملکوں کو پہنچنے والا نقصان کچھ کم ہو سکے۔