آزاد کشمیر: اکیسویں صدی میں غارمیں زندگی بسر کر نے والا خاندان

House in Cave

House in Cave

سہنسہ ، آزاد کشمیر (جیوڈیسک) جس گھرانے کو حکومت نے کوئی چھت نہ دی، ایک غار نے زندگی کی بہاریں بخش دیں، اکیسویں صدی میں آزاد کشمیر کا ایک خاندان غار میں زندگی بسر کر رہا ہے۔ آزاد کشمیر کی تحصیل سہنسہ کے گاوٴں چھتراں میں دور تک پھیلی اس سیاہ و سنگلاخ چٹان تلے اک ایسا گھر آباد ہے جو سادہ و غریب ہو کر بھی دلکش اور خوش حال ہے۔

ستر سالہ محمد رشید کے والدین جب تقسیم کے بعد مقبوضہ کشمیر سے یہاں آئے تو سر چھپانے کو جگہ نہ ملی۔ ایسے میں ان کا ٹھکانہ بنی چٹان کی تہہ میں موجود یہ قدرتی غار۔دو انسانی نسلوں کو اپنی آغوش میں پناہ دینے والا یہ محراب نما غار وقت کے ساتھ بنتا سنورتا رہا۔

آج یہ گھر چار کمروں میں منقسم ہے۔ چٹان کے نیچے دور تک پھیلا آنگن مٹی کی لپائی اور پتھروں کے استعمال سے مزین ہے۔ گھر کو راستہ ایک پتلی پگڈنڈی سے آتا ہے جو اسکول جانے والی آٹھ سالہ بیٹی ملائکہ کی راہ گزر ہے۔ عام استعمال کا کمرہ living rood اور باورچی خانہ سب ایک جگہ ہیں۔

لذیز کھانے کی مہک نہ صرف اندر بلکہ باہر کے ماحول کو بھی مدہوش کر رہی ہے۔مہمانوں کیلئے چارپائیاں اور سحر انگیز نظارے دیدہ و دل فرش راہ کیے ہوئے ہیں۔ ترچھی، پتھریلی اور نوکیلی چھت تلے سنگت و خشت کے اس دیار میں محمد رشید نے پچپن سے جوانی تک کی بہاریں گزاریں۔

یہیں اس کے 9 بچوں نے میٹرک، ایف اے اور بی اے تک علم کے ساماں کیے۔ خودداری کی بلندیوں سے ابھرتے قناعتوں کے سورج ہی اس بارگاہ صبر و شکر کی متاع تما م ہیں۔ چار سال کی عمر میں مقبوضہ کشمیر سے یہاں آنے والے محمد رشید کو تو پاکستان میں کوئی چھت نہ ملی لیکن وہ مطمئن ہے کہ قدرت کی عطا کردہ چھت اس نے زندگی کی ساری ر عنائیاں پالیں۔

رہئیے ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم نوا کوئی نہ ہو ،ہم سخن کوئی نہ ہو