محترمہ کی چھٹی برسی

Benazir Bhutto

Benazir Bhutto

محترمہ بے نظیر بھٹو کی چھٹی برسی پر ہمیں عقیدت کے پھول نچھاور کرنے سے قبل اس طولانی بحث کو سمیٹنا ہے کہ انکے کے قتل کے محرکات کیا تھے آج تک ذمہ داروں سے تفتیش کی راہ میں تاخیری حربے اور کونسی رکاوٹیں حائل ہیں نیز مجرموں کا تعین کیوں نہیں کیا جا سکا۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کہ محترمہ بے نظیر بھٹو عالمی سامراج کی سازش کا شکار ہوئیں لیکن وطن عزیز میں ان ملک اور جمہوریت دشمن قوتوں کے آلہء کار جو لوگ بنے انکے چہرے تو بے نقاب ہیں اور انکا تعین محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی موت سے چند روز قبل اپنی زندگی ہی میں کر دیا تھا۔ یہ دوسرے معنوں میں ایک ایسا قتل تھا جسے اس وقت کی انتظامیہ کی قیادت میں کیا گیا۔ قتل کی تحقیقات کا انحصار ہمیشہ شفاف حالات و واقعات پر ہوتا ہے مگر مشرف کی انتظامی ٹیم نے چند گھنٹوں کے اندر ہی خون ،ممکنہ شہادتیں، گولیوں کے خول، خود کش حملہ آور کے ڈی این اے نمونے سمیت سب کچھ صاف کردیا۔ ابتدائی طبی رپورٹ کے مطابق خود کش حملہ ہونے سے قبل بے نظیر بھٹو کو دو گولیاں لگیں تاہم مشرف انتظامیہ نے واقعات کا رخ بدلنے کی بھر پور کوشش کی۔

وزارت داخلہ کے ترجمان جاوید اقبال چیمہ نے تو یہاں تک کہہ دیا “بے نظیر پر فائرنگ ہوئی تاہم حملہ آور کا نشانہ چوک گیا” بے نظیر بھٹو کو ہسپتال میں دیکھنے والے ڈاکٹروں نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں بتایا کہ “بے نظیر بھٹو کی موت گولی کے زخموں سے ہوئی ” لیکن اگلے روز وزارت داخلہ کے ترجمان کے دبائو پر انہوں نے بیان بدل دیا پھر جاوید اقبال چیمہ ہی نے حکومتی ایما پر گاڑی کے لیور سے موت واقع ہونے کی فرضی کہانی گھڑی۔

جائے حادثہ سے دو پستول بھی ملے جن میں سے ایک نائن ایم ایم اور ایک تیس بور کا تھا قتل کے بعد لگتا تھا جیسے باقاعدہ کہانی گھڑنے کیلئے یہ تمام کارن ہوئے جائے وقوعہ سے تیس بور کی ایک ضائع گولی اور دو خول ملے۔ سکارٹ لینڈ یارڈ ٹیم نے اس اسلحہ کا بھی معائنہ کیا لیکن اہم شخصیت کے مطابق بے نظیر بھٹو کو ان معمولی پستولوں سے قتل نہیں کیا گیا۔ پارٹی رہنمائوں کے مطابق محترمہ کو لیزر بیم کے ذریعہ قتل کیا گیا لیزر بیم کے ذریعے تین سو میٹر سے بھی زیادہ فاصلے سے ٹارگٹ کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے محترمہ بے نظیر بھٹو کے سر سے گولی نہیں نکلی انہیں غسل دینے والی خاتون کا کہنا ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے سر کے آگے اور پیچھے سوراخ تھا جس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ یہ تیس بور گولی کا نشانہ نہیں تھا لیزر بیم امریکہ اور اسرائیل کے اسپیشل اسکواڈ کے پاس بہت محدود تعداد میں ہے سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر یہ لیزر بیم استعمال ہوئی ہے تو یہ پاکستان میں کہاں سے آئی۔

مشرف نے اقتدار کو اپنی مرضی سے نہیں چھوڑا وہ آئندہ بھی اقتدار کی کرسی پر قابض رہنے کے خواہاں تھے آپ دیکھیں مجلس عمل میں اس وقت تک مشرف کی بیعت نہیں کی جب تک علامہ شاہ احمد نورانی موجود رہے اسی طرح نواب زادہ نصراللہ کی موت کے پیچھے بھی کوئی خفیہ ہاتھ کارفرما نظر آتا ہے۔

Pervez Musharraf

Pervez Musharraf

اقتدار کی ہوس مشرف کے حواس پر چھائی رہی اپنے اقتدار کی راہ ہموار کرنے کیلئے وہ انتخابات میں باقاعدہ دھاندلی کا پلان بنا چکے تھے اس بارے میں محترمہ بے نظیر بھٹو اپنی موت سے چند گھنٹے قبل ایک رپورٹ منظر عام پر لانے والی تھیں “جمہوریت کے چہرے پر ایک اور دھبہ” کے عنوان سے یہ رپورٹ محترمہ بے نظیر بھٹو نے پولیس اور خفیہ ایجنسیوں میں اپنے ذرائع کے تعاون سے تیار کی جس میں بڑے پیمانے پر بیلٹ بکسوں کو ووٹوں سے بھرنے، ووٹر لسٹوں میں ردو بدل ،اپوزیشن ووٹروں کو حراساں حتیٰ کہ قتل کرنے کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو یہ رپورٹ امریکی سینیڑوں ارلین سپیکٹر اور رکن ایوان نمائیندگان پیٹرک کینڈی کے حوالے کرنا چاہتی تھیں کیونکہ انہیں بش انتظامیہ پر اعتماد نہیں تھا جو مشرف حکومت کی زبردست حامی تھی رپورٹ میں یہ باور کرایا گیا کہ مشرف حکومت امریکی امداد کو سیاست دانوں کے خلاف اوچھے ہتھ کنڈوں کیلئے استعمال کر رہی ہے امریکہ کی طرف سے دیے گئے آلات میں سے 90% کو سیاسی مخالفین کی نگرانی کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے فوج کی ایک خفیہ ایجنسی نے مشرف کی نگرانی میں ایک ایسا میگا کمپیوٹر نصب کر لیا ہے جو پاکستان میں کسی بھی کمپیوٹر کو نہ صرف ہیک کر سکتا ہے بلکہ الیکشن کمیشن کے نظام سے منسلک ہے اس سے نتائج کو الٹا جانا مقصود ہے میگا کمپیوٹر کو انتخابی فہرستوں میں ردوبدل کیلئے بھی استعمال کیا جارہا ہے اس بات پر یقین کر لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ بے نظیر کو اس رپورٹ کی بنا پر بھی قتل کیا گیا ہو۔

محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی متوقع موت کے حوالے سے ایک دستاویز تیا ر کر کے لندن میں ایک خفیہ مقام پر رکھی جس میں انہوں نے لکھا کہ “اگر میں قتل ہوئی تو” یہ دستاویز اس خط سے مختلف ہے جو انہوں نے 16اکتوبر 2007ء کو مشرف کو لکھا جس میں ایک سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور دو بیوروکریٹس کے نام تحریر کیے گئے تھے اس دستاویز کے بارے میں شاہ محمود قریشی موجودہ رہنما پاکستان تحریک انصاف اور سابق وزیر خارجہ کا دعویٰ ہے کہ یہ بات درست اور حقیقت پر مبنی ہے کیونکہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اس بارے میں مجھے اعتماد میں لیکر خود بتایا تھا کہ Shah Mehmood look “I am telling you if I assessinated, I have saved some documents about my assessination if this happen, it will;” 18 اکتوبر 2007کو وطن واپسی پر کراچی بم دھماکوں میں وہ معجزانہ طور پر بچ گئیں اور یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جب محترمہ بے نظیر بھٹو کراچی ایئر پورٹ سے باہر نکلیں تو بیس لاکھ کے قریب لوگ اُن کے استقبال کیلئے موجود تھے جو کئی دہائیوں کے بعد پاکستانی تاریخ میں کسی لیڈر کا بڑا استقبال تھا صرف عددی اعتبار سے ہی اس استقبال کا دیو ہیکل ہونا مشرف انتظامیہ کیلئے خوفناک تھا اور پھر وہی ہوا جس کا اظہار عومی حلقوں میں کیا جا رہا تھا۔

نظریاتی ورکروں کی ایک بڑی تعداد کو خون میں نہلا دیا گیا شہدا کے کٹے اعضا دور دور تک بکھرے نہایت عبرت ناک منظر پیش کر رہے تھے اس سانحہ کی ذمہ داری بیت اللہ محسود پر ڈال کر جان چھڑا لی گئی جبکہ بیت اللہ محسود کا بیان آن دی ریکارڈ ہے کہ طالبان نہتی عورت پر حملہ نہیں کرتے اس سانحہ میں بچ جانے کے آٹھ روز بعد 26 اکتوبر کو واشنگٹن میں اپنے ترجمان مار ک سیگل کو محترمہ نے ایک ای میل بھیجی جس میں انہوں نے لکھا کہ “میں خود کو مشرف کے منظور نظر افراد سے غیر محفوظ تصور کرتی ہوں میرے لیے خاطر خواہ سکیورٹی انتظامات نہیں کیے گئے اور صدر اسکے ذمہ دار ہیں۔

ہمیں ایک بار پھر اس موقف کا بھر پور دفاع کرنا ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے محرکات کیا تھے قاتلوں کا ابھی تک تعین کیوں نہیں کیا جاسکا؟ بد قسمتی سے 56 برس بعد انہیں عین اس مقام پر نشانہ بنایا گیا جہاں وطن عزیز کے ایک سابق وزیر اعظم کو گولی ماری گئی اور آج 56 برس بعد بھی لیاقت علی خان کے قاتلوں کا پتہ تو درکنار اس بات کا بھی اندازہ نہیں کہ انکے قتل کے پیچھے کونسے محرکات تھے۔

M.R.Malik

M.R.Malik

تحریر : ایم آر ملک