برمودہ ٹرائینگل

Bermuda Triangle

Bermuda Triangle

حضرتِ انسان خواہ ترقی کی کتنی ہی منازل طے کرچکا ہے، چاند پر کمانیں ڈال رکھی ہیں، سمندر کی وسعتوں کو چیر کر رکھ دیا ہے مگر کائنات میں کچھ ایسے راز پوشیدہ ہیں جن کے بارے میں صرف اور صرف اس کائنات کو تخلیق کرنے والا ہی بہتر جانتا ہے، انہی پراسرار رازوں میں ایک راز برمودہ مثلث ہے جو بحر اوقیانوس میں امریکہ کے جنوب مشرقی ساحل کی طرف فلوریڈا ، برمودہ اور پورٹو ریکو کے درمیا ن واقع ہے اور تقریباً۰۰۰،۵۰۰مربع میل ر قبہ پر احاطہ کیے ہوئے ہے ، سمندر میں بننے والی اس مثلث کو برمودہ مثلث یا برمودہ ٹرائینگل کہا جاتا ہے جو اپنے اوپر سے گزرنے والی ہر چیز کو اپنے اندر غائب کرلیتی ہے۔

پندرہویں صدی میں جب کر سٹو فر کولمبس نے امریکہ دریافت کیااور وہ دنیا کا چکر لگا رہا تھا تو دوسرے جہازرانوں کی طرح اس نے بھی اپنے مشاہدات کو قلم بند کیا اس نے اس تکونی مثلث کے بارے میں کچھ یوں لکھا ہے کہ اس نے وہا ں سے آگ کا اٹھتا ہوا گولہ دیکھا ، افق پر سے اٹھتی ہوئی روشنی دیکھی ،اس نے مزید لکھا کہ اس جگہ اس کے قطب نما نے کام کرنا چھوڑ دیا۔
۱۹۶۴ میں ونسنٹ ایچ غاڈث نے پہلی مرتبہ آرگوسی میگزین میں برمودہ مثلث کا لفظ استعما ل کیااور بتایا کہ یہ سمندر کا ایک ایسا حصہ ہے۔

جس میں بہت سے ہوائی جہاز ، بحری جہاز اور کشتیاں پراسرار طور پر غائب ہوگئے ، برمودہ مثلث کی پراسراریت کو بیا ن کرنے والا ونسنٹ ایچ غاڈث کوئی پہلا انسان نہیں تھا بلکہ ہوائی جہازوں اور بحری جہازوں کے پراسرار طور پر غائب ہونے کا سب سے پہلے۱۷ ستمبر ۱۹۵۰ میں ایڈورڈ وین وینیکل جونزنے اپنے ایک آرٹیکل میں دیاجومیامی ہیرآلڈ میں شائع ہوا،اس کے ۲ سال کے بعد ۱۹۵۲ میں جارج ایکس سینڈ نے ’ فیٹ‘ نامی رسالے میں اپنے مشہور آ رٹیکل ’سی مسٹری ایٹ آور بیک ڈور‘ میں برمودہ مثلث کا تذکرہ کیا اور اس میں اس نے بحری جہازوں اور ہوائی جہازوں کے پراسرار طور پر ڈوبنے کو تفصیل سے بیان کیا اور فلایئٹ ۱۹ کے ڈوبنے کا تذکرہ بھی کیا، اس کے علاوہ بہت سے مضامین اور کتابیں برمودہ مثلث پر لکھی جاچکی ہیں۔

اگر تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو سب سے پہلے ڈوبنے والا جہاز جو برمودہ مثلث میں ڈوب کر غائب ہوا یوایس ایس کے نام سے جانا جاتا ہے، ۱۹۱۸ میں غائب ہونے والا یہ جہاز ۵۴۲ فٹ لمبا تھا اور اس میں کل ۳۰۶ مسافر سوار تھے ایک اور جہاز جو غائب ہوا ایس ایس میرین سفر کوئین ولینشز کہلاتا ہے اس میں کل ۳۹ افراد سوار تھے،۱۹۴۱ میں یوایس ایس پروٹیس ۵۸ لوگوں کو لے کر برمودہ مثلث میں غائب ہوگیا ، اس کے علاوہ کیرل اے ڈیرنگ،ایلین آسٹن،سٹار ٹائیگر،ڈو گلاس،ڈی سی تھری، کونی مارا فور جیسے ہوائی جہازوں اور بحری جہازوں کو برمودہ مثلث سے منسوب کیا جاتا ہے۔

اگر برمودہ مثلث میں ڈوبنے والے جہازوں کی کل تعداد دیکھی جائے تو ۱۹۴۵ سے ۲۰۰۸ کے درمیان تقریباً ۱۲۹ جہاز برمودہ ٹراینگل میں غائب ہوگئے اور پھر ۲۰۰۸ کے بعد ایسی خبریں آنا بند ہوگئیں جس نے برمودہ مثلث کو مزید پر اسرار بنا دیایہ آج تک ۲۱۰۰۰لوگوں کی جان لے چکی ہے اور ۵۷ بحری جہاز اس میں ڈوب چکے ہیں جن میں ہوائی جہاز بھی شامل ہیں۔ بریوس جرنون برمودہ مثلث سے بچ جانے والا واحد انسان ہے جو اس کا گواہ بھی ہے سب سے زیادہ مشہور اور پراسرار واقعہ فلائیٹ ۱۹ کا ہے۔

جو ۱۹ دسمبر ۱۹۴۵ کو پیش آیاجس میں پانچ جہازوں کا بیڑا فلوریڈا ائیر بیس سے دو بج کر ۱۰منٹ پر اڑا اور تین بج کر ۴۵ منٹ پر غائب ہو گیا اس کے بعد اس کی تلاش میں جانے والادوسرا جہاز بھی پراسرارطور پر غائب ہوگیاجن کا بعد میں کوئی سراغ نہ مل سکا۔ برمودہ مثلث میں غائب ہونے کی مختلف لوگ مختلف وجوہات بیان کرتے ہیں اس تکون کے بارے میں مختلف طبقہِ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد مختلف رائے رکھتے ہیں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ برمودہ مثلث ایسی جگہ پر واقع ہے جہاں اٹلانٹک ، کیر ئیبین اور گلف آف میکسیکو کا ملاپ ہوتا ہے اور مقناطیسی لہریں پیدا ہوتی ہیں جو ہر چیز کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہاں امریکہ نے لیبارٹریاں بنا رکھی ہیں جہاں انسانوں کے خاتمے کے لیے کیمیکل تیار کیے جاتے ہیں اور دنیا کے سامنے پراپیگنڈہ رچایا جاتا ہے۔

تا کہ کسی کو اس بارے میں کوئی علم نہ ہوسکے اور لوگوں میں خوف باقی رہے ،کچھ وجوہات میں سے ایک وجہ برمودہ مثلث میں میتھین گیس کے کثیر مقدار میں ذخائرموجود ہیں جو چیزوں کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں جبکہ کچھ خاص طبقہ کا خیال یہ ہے کہ برمودہ مثلث میں دجال نے پناہ لی ہوئی ہے جو قیامت کے نزدیک جا کر باہر آئے گا۔

World

World

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ برمودہ مثلث میں کھلنے والا دروازہ کسی اور دنیا اور وقت میں کھلتا ہے جس کی ڈایمینشن یا سمت کا انسان تعین نہیں کرسکتا، خلا ء یا ان دو مختلف ادوار کو میلوںیا فاصلے میں نہیں ماپا جا سکتا کیونکہ ہوسکتا ہے کہ اس دوسرے دور کا میلوں کا فاصلہ یہاں کی محض چند گھڑیاں کے برابر ہواور یہ بھی ممکن ہے کہ یہاں اور وہاں کا وقت مختلف نہیں بلکہ ایک جیسا ہو۔

کچھ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ انہوں نے برمودہ مثلث کا راز معلوم کرلیا ہے ۲۰۱۲ میں امریکی اور فرینچ سائینسدانوں نے جب برمودہ مثلث کا راز جاننے کے لئیے سمندر کی تہہ میں جا کر وہا ں کا جائزہ لیا تو انہیں وہاں کرسٹل سے بنی ہوئی ایک مثلث نظر آئی جس کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے یہ مثلث زمین سے نکل رہی ہویہ برم نما ایک مثلث تھی جس کی چوڑائی اندازاً ۳۰۰ میٹر اور لمبائی ۲۰۰ میٹر ہے اور مصر میں موجود پائرامڈ سے زیادہ بڑی ہے ۔ مثلث کے اوپر دو بڑے بڑے سوراخ ہیں جو سمندر کی لہروں کے بہاؤ کو تیز رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ سمندر کی یہ تیز لہریں اپنے اوپر سے گزرنے والے ہر چیز کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں۔

کس کہانی میں کس حد تک سچائی ہے اسکے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا،۱۹۷۵ میں’ لا رے کسچی‘ نے جو اس وقت ا یر ی زو نا یونیورسٹی میں ایک لائبریرین کی حیثیت سے خدمات سر انجام دے رہا تھااس نے برمودہ مثلث میں ہوائی جہازوں اور بحری جہازوں کے پراسرار طور پر غائب ہونے کے مختلف واقعات اور ثبوتوں کو اکٹھا کر کے قلم بند کیا جس کو اس نے اپنی کتاب میں واضح کیا اور اس کتاب کا نام اسی مناسبت سے ’برمودہ مثلث کا معمہ حل ہوگیا‘رکھا اس نے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ بہت سے واقعات اس حد تک عجیب نہیں تھے جتنا پر اسرار بنا کر انہیں پیش کیا گیا اس نے کچھ سوال اٹھائے کہ کیا کسی سائنسدان نے کبھی یہ نوٹس لیا کہ جب کوئی جہاز ڈوبا تو آیا وہاں پہلے سے طوفان تونہیں برپا تھا ، کیا جہاز پرسکون سمندر میں ڈوبا تھا؟ کیا موسم اور ہوا میں تغیانی کیفیت تو نہیں تھی ؟کچھ سائنسدانوں نے جہازوں کے ڈوبنے کو بہت پر اسرار بنا کر پیش کیا جبکہ بعد میں انہی جہازوں کے با قیات کچھ فاصلے سے مل گئے تھے۔

کسی بھی فرضی کہانی کو سچ ماننے کے لیے ثبوت کا ہونا بہت ضروری ہے ،کیا برمودہ مثلث واقعی ایک پر اسرار حقیقت ہے ؟ ابھی تک یہ معمہ بنا ہوا ہے کیونکہ سمندر کا وہ حصہ جو برمودہ مثلث میں آتا ہے بہت حد تک یورپ، ساؤتھ امریکہ اور افریقہ کی بندرگاہوں کے درمیان تجارت کے لیے استعما ل کیا جاتا ہے اور بہت سے جہازوں، چھوٹی کشتیوں ، کمرشل بحری جہازوں، آرمی کے ہوائی جہا زوں کی گزرگاہ ہے گرمیوں میں گرم پانی یہاں طوفان لانے کا باعث بن سکتا ہے مگر کسی بھی ثبوت کے بغیر کچھ بھی کہنا اور برمودہ مثلث کا راز جاننا ناممکن ہے اسی کے پیش نظر امریکہ میں ہر سال کانفرس منعقد کی جاتی ہے جس میں دنیا بھر سے سائنسدانوں کو مدعو کیا جاتا ہے کہ وہ آئیں اور اس پر تحقیق کریں،ہزاروں کاوشوں کے باوجود برمودہ مثلث ایک راز بنی ہوئی ہے ،امریکہ جیسا ترقی یافتہ ملک بھی اس کا راز جاننے میں ناکام رہا ہے یہ ایک معمہ ہے جس کا رازصرف اس کائنات کو تخلیق کرنے والے کے پاس ہے۔

Syham Anwar

Syham Anwar

تحریر : سیہام انور