بریگزٹ جانسن کے ’گلے کی ہڈی‘ بن گیا: اکتوبر میں بھی بہت مشکل

Boris Johnson

Boris Johnson

لندن (اصل میڈیا ڈیسک) برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج کا فیصلہ دو وزرائے اعظم ڈیوڈ کیمرون اور ٹریزا مے کی ان کی عہدوں سے رخصتی کی وجہ بن گیا تھا۔ اب اسی بریگزٹ پر عمل درآمد ان کے پس رو وزیر اعظم بورس جانسن کے ’گلے کی ہڈی‘ بھی بن گیا ہے۔

بورس جانسن نے برطانوی وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہونے کے فوری بعد یہ کہہ دیا تھا کہ وہ ہر حال میں اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ برطانیہ اس سال اکتیس اکتوبر کی ڈیڈ لائن تک یورپی یونین سے نکل جائے۔ اگر اس عرصے میں کوئی نیا بریگزٹ معاہدہ ہو گیا تو اچھا ہو گا اور نہ بھی ہوا تو لندن بغیر کسی باقاعدہ معاہدے کے ہی اس بلاک سے نکل جائے گا۔ اس عمل کے لیے ماہرین ‘نو ڈیل بریگزٹ‘ یا ‘ہارڈ بریگزٹ‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔

بورس جانسن کو ان کے ان ارادوں سے روکنے کے لیے برطانوی پارلیمان کے ایوان زیریں یا ہاؤس آف کامنز نے حال ہی میں ایک ایسی قرارداد بھی منظور کر لی تھی کہ جانسن ‘نو ڈیل‘ بریگزٹ پر اکتیس اکتوبر کو عمل درآمد نہیں کر سکتے تھے۔

اس لیے کہ تب لندن میں اراکین پارلیمان نے بریگزٹ سے متعلقہ امور ایک طرح سے اپنے ہاتھ میں لے لیے تھے۔

پھر بورس جانسن نے یہ دھمکی بھی دے دی تھی کہ اگر پارلیمان نہ مانی تو وہ ملک میں نئے عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کر دیں گے۔ اس امکان کو بھی دارالعوام کے ارکان نے ایک اور قرارداد منظور کر کے روک دیا۔ اس کے بعد ایوان بالا یا ہاؤس آف لارڈز نے بھی جمعہ چھ ستمبر کی رات ایک قرارداد منظور کر لی، جس میں ہاؤس آف کامنز کے فیصلے کی حمایت کر دی گئی۔

یہ فیصلہ برطانیہ میں پارلیمانی سطح پر بورس جانسن کے بریگزٹ سے متعلقہ ارادوں کے لیے مسلسل تیسرا بڑا دھچکا تھا۔

لیکن اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اب موجودہ برطانوی وزیر اعظم کے لیے اور بھی مشکل ہو گیا ہے کہ وہ برطانیہ کے کسی ڈیل کے بغیر ہی اکتوبر کے آخر تک یورپی یونین سے نکل جانے کے پہلے سے کیے گئے فیصلے پر عمل درآمد کو یقینی بنا سکیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اب یہ خطرہ بہت کم رہ گیا ہے کہ برطانیہ 31 اکتوبر تک ‘ہارڈ بریگزٹ‘ کی صورت میں یورپی یونین سے نکل جائے گا۔ اس لیے کہ فی الحال جانسن کے پاس ملکی پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے اس فیصلے کا کوئی توڑ موجود ہی نہیں کہ دارالعوام اور دارالامراء نے ‘نو ڈیل بریگزٹ‘ کا راستہ عملاﹰ بند کر دیا ہے۔

اس قانون کی منظوری کے بعد اب یہ مسودہ دستخطوں کے لیے ملکہ الزبتھ ثانی کے سامنے رکھا جائے گا۔ ہاؤس آف لارڈز کے ایک بیان کے مطابق ملکہ کی طرف سے دستخطوں کے بعد یہ مسودہ نہ صرف باقاعدہ قانون بن جائے گا بلکہ یہ پیر نو ستمبر سے باقاعدہ طور پر نافذالعمل بھی ہو جائے گا۔

موبائل فون سروسز فراہم کرنے والے دنیا کے اس دوسرے بڑے ادارے کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ برطانیہ کو الوداع کہہ دینا خارج از امکان نہیں ہے اور ممکنہ طور پر یہ ادارہ اپنے ہیڈکوارٹرز جرمن شہر ڈسلڈورف میں منتقل کر دے گا۔ جرمن علاقے رائن لینڈ میں ووڈافون کے نئے کیمپس میں پانچ ہزار ملازمین کی گنجائش ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ جرمنی اس ادارے کی سب سے بڑی منڈی بھی ہے۔

اس مسودہ قانون کے تحت وزیر اعظم بورس جانسن کو اس بات کا پابند بنا دیا گیا ہے کہ اگر وہ 19 اکتوبر تک یونین کے ساتھ کوئی نیا معاہدہ طے کرنے میں ناکام رہتے ہیں، تو انہیں برسلز میں یورپی یونین کے حکام کو یہ باقاعدہ درخواست کرنا ہو گی کہ بریگزٹ پر عمل درآمد کے لیے اب تک کی 31 اکتوبر کی ڈیڈ لائن میں کم ازکم بھی مزید تین ماہ کی تاخیر کر دی جائے۔

دوسری طرف بورس جانسن خود یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ ایسا تو اپنی زندگی میں بالکل نہیں کریں گے۔ انہوں نے اسی ہفتے کہہ دیا تھا، ”میں یورپی یونین کو اس ڈیڈ لائن میں مزید کسی توسیع کی درخواست دینے سے زیادہ یہ پسند کروں گا کہ مجھے مر کر قبر میں لیٹنا پڑے۔‘‘

یوں برطانیہ کے یورپی یونین سے آئندہ اخراج کے فیصلے پر عمل درآمد اب اس حوالے سے انتہائی مشکوک ہو گیا ہے کہ لندن حکومت اس فیصلے پر آخر کب تک عمل کر سکے گی۔