کیبل ، موبائل فون اور ہمارا نوجوان

Mobile Phone

Mobile Phone

ہر گزرتے دن کے ساتھ ٹیکنالوجی کی دنیا میں نئی نئی ایجادات نے انسان کو جہاں بہت سی سہولیات بخشی ہیں وہیں اس کی وجہ سے لاتعداد معاشرتی برائیاں بھی جنم لے رہی ہیں۔موبائل فون نے رابطہ بہت آسان بنا دیا ہے ۔اس نے جتنی کم مدت میں پاکستان میں جتنی زیادہ پزیرائی حاصل کی ہے، شاید ہی کہیں اور کی ہو۔ ایک طبقہ فکر کی یہ رائے کہ مسلم ممالک کی واحد ایٹمی ریاست اور ذہین ترین لوگوں کی سرزمین کے باسیوں کو صیہونی طاقتیں ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت بے راہ روی کا نشانہ بنا رہی ہیں، کافی جاندار ہے۔ کیبل اور ٹی وی پر اخلاقیات سے عاری پروگرام ، انٹرنیٹ پر موجود بے ہودہ گانے اور فلمیں ، موبائل کمپنیوں کے لیٹ نائٹ اور گھنٹہ پیکجزاس رائے کو مزید تقویت دیتے نظر آتے ہیں۔ موبائل فون کی افادیت سے انکار ممکن نہیں مگر نوجوان نسل موبائل کمپنیوں کی جانب سے فراہم کردہ انٹرنیٹ ، کال اور میسجز کی پرکشش آفرز کے سحر میں مبتلا ہو کربہت جلد بے راہ روی کا شکار ہو جاتی ہے۔

کیبل دنیا بھر کے حالات سے باخبر رہنے کا ایک اہم ذریعہ ہے لیکن اس پر غیر اخلاقی ڈراموں، فلموں اور گانوں کی نمائش سے نوجوانوں اور بالخصوص بچوں کے ناپختہ ذہنوں پر کس قدر منفی اثرات ثبت کر رہے ہیں اس کا اندازہ ہماری اعلیٰ روایات کی گمشدگی اور تیزی سے بے راہ روی کا شکار ہوتے معاشرہ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ موبائل فون کے استعمال اور کیبل پر غیر ملکی ثقافت اور غیر اسلامی روایات دکھانے کی وجہ سے درپیش مشکلات کو جا ننے کے لئے ایک غیر سرکاری تنظیم نے ایک سروے کیا جس کے مطابق پاکستان میں ایک سال کے دوران ہزاروں کی تعداد میں نوجوان لڑکیاں اپنے مرد دوستوں کے ساتھ گھروں سے فرار ہوئیں۔ یکم جنوری 2012 سے 25 جنوری 2013 تک کے اعداد و شمار 17 ہزار 211 لڑکیاں فرار ہوئیں جن میں سے چار ہزار سے زائد شادی شدہ جبکہ ایک ہزار سے زیادہ سکول ، کالج اور یونیورسٹیوں کی طالبات ہیں۔

Mobile

Mobile

ان میں سے پندرہ ہزار ایک سوپچیس لڑکیاں ایسی ہیں جو موبائل فون رابطے ہونے کے سبب اپنے سہانے سپنوں کو تعبیری شکل دینے کے لئے گھروں سے فرار ہوئیں۔ واضح رہے کہ اس تنظیم کے عہدیداروں نے یہ اعداد و شمار مختلف تھانہ جات میں درج مقدمات اور دارلامان سے حاصل کئے۔ اس سب میں موبائل فون کے ساتھ کیبل کا بھی اہم کردار ہے۔ تنظیم کے مطابق ان لڑکیوں میں سے اکثر نے بتایا کہ ہماری ماں کو معلوم تھا کہ ہم موبائل پہ کس سے بات کرتی ہیں مگر انہوں نے ہمیں کبھی منع نہیں کیا تھا اور یہی ہماری بدقسمتی ہے۔ یہاں بتاتا چلوں کہ اس تنظیم نے وہ واقعات رپورٹ نہیں کئے جو موبائل فون اور ناجائز روابط کی وجہ سے غیرت کے نام پر قتل کر دئیے گئے۔ یہ ہے لا الہ اللہ کی بنیاد پربننے والی اسلامی فلاحی ریاست کا حال۔

اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے والدین کو بہت زیادہ احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔ مانا کہ حد سے زیادہ سختی اور حد سے زیادہ پیار دونوں ہی بگاڑ کا سبب ہیں۔ مگر اس دور میں نوجوان نسل کو بری صحبت اور غلط راہ سے بچانے کے لئے ٹھوس اقدامات ناگزیر ہیں۔ والدین کو بچوں کے موبائل فون کے ریکارڈ کو چیک کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں پوسٹ پیڈ سمز کا استعمال مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ موبائل فون کمپنیوں کو بھی اس سلسلہ میں ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ حکومتی اداروں کو بھی موبائل فون کمپنیوں اورکیبل پر چلنے والے پروگراموں پر چیک اینڈ بیلنس کو یقینی بنانا چاہیے تا کہ معاشرہ کی بڑھتی ہوئی بے راہ روی پہ قابو پایا جا سکے۔

تحریر : تجمل محمود جنجوعہ

Tajamal Mehmood

Tajamal Mehmood