سنبل، فائزہ ہم تمہارے گنہگار ہیں

Sunbal

Sunbal

گزشتہ کچھ روز سے سنبل کے ساتھ ہونے والے واقعے کے بعد بہت سی چیزیں دل و دماغ میں آرہی تھیں کہ شاید ہم 1500 سال پہلے والے زمانہ جاہلیت میں آگئے ہیں۔ یا نہیں بلکہ 1500 سال پہلے لوگ اپنی زندہ بیٹیوں کو اس ڈر سے زندہ دفن تو نہیں کرتے تھے کہ ان کی عزت کہیں لٹ نہ جائے وہ معاشرے میں بدنام نہ ہو جائیں وہ معاشرے میں رسوا نہ ہو جائیں۔

یا شاید ہمارے زمیر مردہ ہو گئے ہیں۔ ہمارے دل کالے ہو گئے ہیں۔ ہماری آنکھوں کا حیا ختم ہو گیا ہے۔ ہماری زبان دب گئی ہے،۔ ہم گناہ کو فخر سمجھتے ہیں اور (حوا) کی بیٹی کی عصمت لوٹنا فخر سمجھتے ہیں۔ یا شاید فخر کے ساتھ جنسی کھیل بھی کھیلتے ہیں۔ کیا ہم ان جیسے نہیں کہ جیسے ہم شیشہ پلائی دیوار جیسے ہوں۔ یا یہ کہ ہو سکتا ہے۔ سنبل کی جگہ میری بیٹی ہوتی۔ لیکن یہ تمام باتیں ذہن میں چل ہی رہی تھیں کہ گزشتہ سوموار کے روز ایک اور خبر آئی کہ تھانہ سندر کے علاقے میں ایک اور 5سالہ بچی فائزہ کے ساتھ جنسی زیادتی ہوئی ہے۔

یہ خبر سن کر تو اپنی ذات سے نفرت سی ہونے لگی۔ کہ ایک ذیادتی کیس کے بعد فوری ایسے کوئی اقدام کیوں نہ کر سکے جس کی وجہ سے لاہور رہی میں ایک اور ذیادتی کیس سامنے آگیا۔ اگر ہم نے فوری طور پر قومی اسمبلی میں کوئیسخت سزا کا قانون منظور کر لیا ہوتا چاہے اس کے لیے ہنگامی اجلاس ہی کیوں نہ بلانا پڑتا منظور ہونا چاہتے تھا۔ شاید فائزہ تو اس سانحہ سے بچ جاتی۔

ان دونوں بچو ں کے ساتھ زیادتی کرنے والے ان کے ساتھ دردنگی کا کھیل کھیلنے والے ان کو معاشرے کی نظروں میں حیران کن بنانے والوں کے گھر میں بھی تو ان جیسی کلیاں ہوں گی۔ کیا وہ درندے اپنے گھروں میں موجود ان کلیاں کو بھی سنبل اور فائزہ کی طرح دیکھتے ہوں گے۔ نہیں اُنہی ں تو وہ اپنی عزت کہتے ہوں گے۔ انہیں تو کھیل کے لیے کھلونے دیتے ہوں گے۔ اور اگر روتی ہونگی تو انہیں چُپ کروانے کے لیے دلاسے دیتے ہوں گے۔ لیکن ان ظالم درندوں کے دماغ و دل کیوں سو گئے۔ کہ انہوں نے ان معصوم کلیوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا۔ ان کے ماں باپ کو دنیا کے سامنے نشان بنا دیا۔

قارئین ہم اس معاشرے کا حصہ ہیں جہاں شاید آپ جیسے لوگ ان بچیوں کے ملزموں کو برا تو کہتے ہوں گے۔ لیکن کچھ کر نہیں سکتے۔ آخر تب تک ہمارے معاشرے میں یہ ظلم ہوتا رہے گا۔ آخر کب تک حوّا کی بیٹی حوس کا نشانہبنتی رہے گی۔ آخر کب تک حوا کی بیٹی کو انصاف نہیں ملے گا۔ کب تک ہم حوا کی بیٹی کو دلاسہ دیتے رہیں گے آخر کب تک۔ سنبل کی حالت اب خطرے سے باہر محسوس ہوتی ہے اور فائزہ کے بارے میں بھی ڈاکٹروں کا کچھ ایسا ہی کہنا ہے۔ قارئین یہ دونوں الگ الگ واقعات ہیں لیکن ان دونوں واقعات کو اکھٹا بیان کرنا مجبوری اور ضروری ہے۔

Poor Man

Poor Man

دونوں بچیوں کی حالت بہتر ہے۔ لیکن پتہ نہیں اب ان بچیوں کا مستقبل کیا ہو گا۔ پتہ نہیں ہماری گورنمنٹ اور مختلف NGO ان کو مختاراں مائی کی طرح سہارا دیں گی یا نہیں۔ کیونکہ ان دونوں بچیوں کو اگر معاشرے میں ایک اچھا مقام دلانا ہے ان کا مستقبل تاریک ہونے سے بچانا ہے تو ان کے ہاتھ تھامنے ہوں گے تاکہ ہمارے معاشرا ان بچیوں کو قبول کرنے کے لیے تیار ہو ان کو دل و دماغ سے عزت دینے کے لیے تیار ہو۔

ان کے ساتھ یہ بھی گزارش کرنا چاہوں گا کہ تمام سیاسی قائدین ان بچیوں کو اپنی بیٹیوں کی جگہ رکھ کر سوچیں خدارا! کوئی ایسا عبرت ناک قانون پاس کریں جو معاشرے کے لیے عبرت بن جائے۔ سنبل اور فائزہ کو اپنے ساتھ زندگی جس ظلم کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ہماری کس اور بیٹی کو نہ کرنا پڑے۔ اور تمام سیاسی قائدین سے گزارش ہے کو اس مشکل وقت میں ایک ہو جائیں۔ بہت شکوة کے ساتھ کہنے لگا ہوں کہ میڈیا پر بیان تو بہت سے سیاستدانوں نے دیا لیکن ان بچیوں کے پاس کتنے سیاستدان گئے۔

سنبل کے پاس کچھ لوگ اور فائزہ کے پاس صرف صوبائی وزیر ہیلتھ خلیلطاہر سندھو۔ ان بچیوں کے پاس تو تمام لیڈران کو آکٹھے ہو کر پہنچنا چاہیے تھا ان کے والدین کا سہارا بننا چاہیے تھا۔ اور پارلیمنٹ کے ممبران سے یہ بھی گزارش ہے کہ فائزہ کا ملزم نے اعتراف جرم کر لیا ان کو خود ہی سزا دلوائی جائے اور جتنی جلد ہو سکے سنبل کے ملزمان کو بھی گرفتار کر کے عبرت ناک بنایا جائے۔ اور آخر میں سنبل اور فائزہ کو کچھ کہنا چاہوں گا۔

کہ خدا کرے یہ سارا واقعہ تمارا ذہن سے صاف ہو جائے اور تمہارا دل میں موجود اس سارا واقعہ کا خوف ختم ہو جائے لیکن اگر تم دونوں اس وقوعہ کو بھلا نہ پائو تو اس میں ہمیں ہو سکے تو اس معاشرے کو ضرور معاف کر دینا کیونکہ اگر تم نے ہمیں معاف نہ کیا تو ڈر ہے کہ تمہارے ملزموں کے ساتھ روز حشر کے دن ہم بھی خداوند کی بارگاہ میں تمہارے مجرموں کے ساتھ کھڑے نہ ہوں کیونکہ ہم بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں جہاں پر تمہارے ملزم ہیں۔ لیکن تمہارا مجرموں کو خدا ضرور کہفر کردار تک پہنچائے گا۔

Abdalrf Chauhan

Abdalrf Chauhan

تحریر: عبدالرف چوہان