پڑ گئی ہم کو تیری یاد کی عادت لکھنا
ڈھونڈتے ہیں چارہ گر دردِ لادوا لے کر
اے وادی کشمیر
پاس رہ کے بھی فاصلہ دیکھا
روز کرتا ہے سوگوار ہمیں
کہیں چلے جائو
ایک صدا سی کانوں میں گونجتی رہتی ہے
حیرت ہے کہ ہر آدمی ناکام بہت ہے
دکھ شوق سے کتنے ہی لئے پال یہ دیکھو
چاہت ِ زیست لیے جیتے ہیں مر جاتے ہیں
ہر پل بچھڑتے رہنے کا یہ ڈر اتار دے
کون اب ہم کو جگانے آئے
دسمبر ہر سال ایک نیا زخم دے جاتا ہے
ماں جدھر میں هوں
چلو کہ آئو زمانے سے اختلاف کریں
خبر کسے کہ وہ کتنا اداس رہتا ہے
دیکھ کر کیوں مجھے مسکراتے ہو تم
روشن ستارے
پسِ دیوار بھی اکثر صدائیں خوب ملتی ہیں
بن کر
کم ظرف کو حواس پہ چھانے نہیں دیا
ہم نے کوئی بھی عکس چرانے نہیں دیا
بہتان بن کر بھلا کیسے جیا جا سکتا ہے
میلاد نبی کا مناتے رہنا