سفرِ حج سوم

Hajj

Hajj

تحریر : میر افسر امان

عازمین حج نے مدینہ منورہ سے اپنے رشتہ داروں ،دوستوں، بچوں کے لیے مختلف اشیاء خریدیں جس میں جاہ نمازیں، ٹوپیاں،تسبیاں،عربی اسکارف اور دوسرے ملبوسات اور مختلف اشیا شامل ہیں۔ یہاں کی خاص سوغات کھجوریں ہیں۔ ان کے خریدنے کا مسئلہ درپیش آتاہے۔ عازمین حج نے مختلف قسم کی کھجوریں خریدیں جس میں عجوہ کھجوریں نمائیں تھیں۔کسی نے ہوٹلوں کے نیچے مارکیٹوں میں، مسجد کے راستوں میںموجود مختلف دکانوں اور کچھ نے کجھوروں کے لیے مخصوس کھجور بازار جا کر خریداری کی۔

مسجد اور ہمارے ہوٹل کے راستے میں باپردہ خواتیں کبوتروں کے لیے دانے فروخت کرنے کے لیے راستے میںبیٹھی ہیں۔ عازمین حج دانے خرید کر کبوتروں کو ڈالتے ہیں۔اسی راستے میں اکا دکا بھیک مانگنے کے لیے خواتین بھی بیٹھی ہیں۔ مسجد نبوی میں داخلے والے مین گیٹ والے حصے میں عورتوں کی نماز کے لیے جگہ مخصوص ہے جس میں دنیا بھر سے آئی ہوئی خواتین نماز ادا کرتیں ہیں ۔الحمداللہ ہمارے گروپ کا مسجد نبوی میں٤٠ نمازیں پوری ہونے کے بعد ہفتہ کی صبح فجر کی نماز کے بعد مکہ مکرمہ جانے کا پروگرام بنا۔سب لوگ بسوں میں سوار ہو گئے۔ معلم کے نمایندے نے پاسپورٹ سے بنائی گئی لسٹ کے مطابق تمام عازمین حج کی حاضری لی۔ عمرہ کے لیے احرام پہنے ،تلبیہ پڑھتے عازمین حج مکہ مکرمہ کی جانب سفر پر روانہ ہوئے۔

عازمین حج نے راستے میں ایک مسجد میں ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍنماز ظہر اداکی اور عمرہ کی نیت کی ۔جدہ ایئر پورٹ سے مکہ مکرمہ کا سفر رات کا تھا جس کی وجہ سے ہم راستے کا مشاہدہ نہ کر سکے۔مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کاسفر دن کا تھا اس لیے راستے کا مشاہدہ کرنے کا موقعہ ملا۔ یہاںسڑکیں کشادہ ہیں۔سفر شروع ہوتے ہی پہاڑیاں ہی پہاڑیاں نظر آئیں۔ پہاڑیاں موسمی تبدیلی اورتغیر کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ ایک بس کے ہم سفر کے مطابق ایسا لگتا ہے جیسے کسی نے یہ پہاڑیاں توڑی ہوں۔ بقول ہمارے روم میٹ، بھائی عبدالمجید قریشی کے ایسا لگتا ہے جیسے پہاڑیوں پر پتھروں کی فصل اُگی ہوئی ہو۔ آدھے راستے کے بعد کچھ حصہ ریگستان کا بھی تھا۔کسی بھی جگہ کوئی کھیتی باڑی نظرنہیں آئی نہ ہی کھجورں کے باغات نظر آئے اور نہ ہی ہریالی نظر آئی۔ شاید اس کی وجہ موٹر وے ہے

جو عموماً آبادیوں سے باہر بنائے جاتے ہیں۔ مکہ مکرمہ پہنچنے پر پھر پہاڑیاں شروع ہو گئیں۔ہمارا قافلہ تقریباًآٹھ گھنٹے کے سفر کے بعد مکہ مکرمہ پہنچا۔ بس نے ہمیں رہائش گاہ بلڈنگ نمبر ٦٠٥ مکتب نمبر ٧٥ منطقہ عزیزیہ میں پہنچا دیا۔وہی جگہ جو ٤٠ دن مکہ مکرمہ میںہمارے حج کے دوران قیام کے لیے مخصوص ہے۔ کچھ دیر آرام کرنے کے بعد عازمین حج عمرہ کی ادائیگی کے لیے چلے گئے۔ہم٨دن بعدمدینہ منورہ کی زیارت کے بعدواپس مکہ مکرمہ آگئے۔ بلڈنگ نمبر ٦٠٥ بی کے استقبالیہ کی دیواروںپر مختلف اشتعار آویزاں ہیں۔

پاکستان حج مشن کے مکہ مدینہ اور جدہ کے مفت ہیلپ نمبر، سعودی حکومت کا معلومات کے لیے مفت نمبر کے اشتعارات لگے ہوئے ہیں۔ کچھ پرعازمین حج کی رہنمائی کے ہدایات درج ہیں۔ان میں سے ایک اجتماعی قربانی کے متعلق اشتعار پر لکھا ہوا ہے کہ جب سے اسلامی ڈیو لپمنٹ بنک کی اجتماعی قربانی کی سکیم کے تحت اجتماعی قربانی ہو رہی ہے ١٠ لاکھ قربانی کے جانوروں کا گوشت فریز کر کے ٢٨ غریب مسلمان ملکوں کو بھیجا جا رہاہے جبکہ اس سے قبل اس گوشت کو بلڈوزر کے ذریعے منیٰ زمین میں دبا دیا جاتا تھا جو ایک ضیاع تھا۔ مکاتب پاکستان کا ایک بڑا نقشہ جس میں منیٰ،مزدلفہ اور میدان عرفات،ریلوے اسٹیشن ،پولز نمبرز اور پیدل چلنے کے راستے وغیرہ دکھائے گئے ہیں بھی لگا ہوا ہے۔

اس کے مطابق پاکستانی مکاتب کی تعداد ١٠٩ ہے،اسی طرح ہمارے معلم جمال عثمان خان کابھی اشتعار لگا ہوا ہے جس میں تصویروں کی مدد سے عازمین حج کو حج کرنے کے طریقے سیکھائے گئے ہیں۔ یہاں پاکستان حج مشن میں معزورین کے لیے ویل چیئرز کا بھی بندوبست ہے جو خریدی یا زر ضمانت جمع کروا کر حاصل کی جا سکتیں ہیں۔ ہمارے گروپ کے ایک ساتھی نے اپنی بیوی کے لیے ٢٠٠ ریال جمع کرو اکے ویل چیئر حاصل کی ہے۔واپسی پر ویل چیئر جمع کروا کے جمع شدہ رقم واپس مل جائے گی۔ اب بورڈ لگا دیا گیا ہے کہ یہ سہولت ختم ہو گئی ہے۔

Pakistan

Pakistan

شاید اسٹاک ختم ہو گیا ہو گا۔ ویسے میڈیکل اسٹورز سے بھی ویل چیئر خریدیں جا سکتیں ہیں۔ ہم نے تو کراچی میں ہی اپنے لیے ویل چیئر خرید لی تھی تاکہ پریشانی سے بچا جا سکے۔ استقبالیہ پر پاکستان حج کا عملہ رہنمائی کے لیے ہر وقت حاضر ہے۔ عازمین حج کے بیٹھنے کے لیے استقبالیہ میں صوفہ سیٹ اور کرسیاں پڑیں ہیں۔ استقبالیہ کی جگہ ایئر کنڈیشنڈ اور خاصی وسیع ہے۔استقبالیہ میں ایک ٹی وی سیٹ پڑاہے جس پر ٢٤ گھنٹے بیت اللہ کا لائیو پروگرام آتا ہے۔رہا ئش گاہ منطقہ عزیزہ میں، حج

مشن پاکستان نے رہائش اور کھانے کا بہترین انتظام کیا ہوا ہے۔کھانے کے ١وقات طے شدہ ہیں۔دیوار پرہفتہ بھر کا مینیو لگا ہوا ہے۔ ہماری نظر دیوار پر لکھے ٹائم ٹیبل پر پڑی، لکھا ہے صبح کا ناشتہ ٧ بجے سے ١٠ بجے تک،دوپہر کا کھانا ١ بجے سے ٤ بجے تک اور رات کا کھانا٧ بجے سے ١١ بجے تک ملے گا جس پر ممکن حد تک عمل بھی ہورہا ہے۔ ہر کھانے کے ساتھ کولڈڈرنکس ، جوئس،لسی،دہی، فروٹ اور کبھی کبھی حلوہ بھی دیا جاتا ہے۔ اب ہم نے حج کی ادائیگی تک مکہ مکرمہ میں ہی رہنا ہے۔ انشاء اللہ٣ اکتوبر کو کراچی کی واپسی ہے۔ کچھ دیر تک رہائش گاہ میں سامان سیٹ کرنے کے بعد رفقاء عمرہ کرنے چلے گئے۔ عمرہ کی ادائیگی کے بعد گروپ کے لوگ اپنے اپنے کمروں بستروں پر لیٹ گئے۔

اس کے بعد دوسرے عازمیں حج کے ساتھ ساتھ ہمارے روم میٹس صاحبان نے بیت اللہ میں جا کر پانچ وقت نماز باجماعت ادا کرنا شروع کی جو اب تک جاری ہیں۔ رہائش گاہ کے سامنے بسیں بیت اللہ لے جانے کے لیے ہر وقت تیار ملتیں ہیں اور واپس بھی لاتیں ہیں۔ پاکستان حج مشن کی طرف سے ٹرانسپورٹ کا بھی بہترین انتظام ہے۔ بیت اللہ میں نماز پڑھنے کے لیے عازمین حج ہر نماز کے لیے بس سروس سے دو بسیں تبدیل کر کے جاتے ہیں۔ ہمارے روم میٹس کے عازمیں حج نے جیسے مسجدنبوی میں باب مکہ کے اند ر ایک مخصوص جگہ پرنماز ادا کیا کرتے تھے اسی طرح ہمار ے روم میٹ صاحبان نے بیت اللہ میں بھی باب عبدالعزیز سے داخل ہونے اور کسی ایک مخصوص جگہ کا انتخاب کرنے کا پروگرام بنایا تھا مگر رہائش اور بیت اللہ میں فاصلہ زیادہ ہونے ،اور دوسری وجہ دو بسیں تبدیل کرنے سے یہ سلسلہ نہ چل سکا۔

ہمیںدن میں صرف پہلے تین نمازیں پھر دوبا جماعت بیت اللہ میں ادا کرنے کا موقع ملا۔ پھر کچھ دن تک ہم عصر سے عشاء تک بیت ا للہ میں ہی پڑاو ڈالے رہے تاکہ وقت پر نماز ادا کی جا سکے۔ ہمارا بیٹا ہمیں بیت اللہ کے سامنے سیڑیوں کے قریب پہنچا دیتا تھا اور ہم نماز کے بعد عازمین حج کو طواف کرتے دیکھ کر روحانی سکون حاصل کرتے رہے ۔ایک دن بیٹا مطاف میں بیت اللہ کے قریب تک لے گیا۔ہم نے بیت اللہ پر نظریںگاڑ دیںاور خوب دعائیں مانگیں۔کچھ دن بعد یہ سلسلہ بھی نہ چل سکا کیونکہ مجھے میرا بیٹا ویل چیئر پر سارے سفر ، جدہ ایئر پورٹ ،مسجد نبوی اور اب یہاں بیت اللہ لے جاتا اورواپس لاتا رہا ہے۔

ویلز چیئر ہم پاکستان سے ہی ساتھ لیکر گئے تھے اور بیٹے کو بھی اسی مقصد کے لیے ساتھ حج پرلے گئے تھے۔ مدینہ منورہ میں رہائش گاہ مسجد نبوی کے قریب تھی اس لیے لوگ پیدل ہی نمازیں ادا کرنے جاتے تھے اور ہم ویل چیئر پر نماز ادا کرنے مسجد نبوی جاتے تھے۔ یہاں مکہ مکرمہ میں بیت اللہ رہائش سے دور ہے۔ پہلے رہائش گاہ کے دوسرے فلور سے ،پھر بے تحاشہ رش میں دو بسوں کی تبدیلی اور دو بسوں میں ویل چیئر چڑھانا اُتارنا تکلیف دہ عمل ہے۔ کئی دفعہ ہم بس پر چڑھ گئے اور بیٹا ویل چیئر سمیت پیچھے رہ گیا اور دوسری بس میں سوارر ہو کر آیا۔ کاش عازمین حج قطار بنا کر بس میں سوار ہوتے تو یہ دشواری کم ہو سکتی تھی مگر اس اصول پر عمل نہ ہو سکا جس کا زور چلا وہ بس پر سوار ہاگیا جو کمزور تھا پیچھے رہ گیا۔
بسوں میںعازمیں حج کی زیادہ تعداد اور بس میں سوار ہونے پر تکلیف کی وجہ سے کچھ دن بعد ہم نے مجبوراً نمازیں رہائش کے قریب میں ہی مسجدعبداللہ بن عمران میںادا کرناشروع کیں۔

معلوم کرنے پر بتایا گیا کہ کہ ہماری رہائش گاہ منطقہ عزیزہ حرم کے حدود میں شامل ہے یہاں کی مسجد میں نماز پڑھنا بھی حرم میں نماز پڑھنے جیسا ہے۔ ویسے رہائش گاہ کے گراونڈ فلور پر بھی نماز کا انتظام ہے۔ کچھ عازمین حج بھی قریب مسجد میں ہی نماز ادا کرنے جاتے ہیں۔ مسجد مکمل ایئر کنڈیشنڈ ہے۔حج اور عمرے کے متعلق چھوٹے چھوٹے کتابچے مفت لے جانے کے لیے رکھے ہوئے ہیں۔عرب کی مہمان نوازی کو جاری رکھتے ہوئے یہاں مسجد میں ایک عدد ریفریجرایٹر موجود ہے جس میں سے ہر نمازی ٹھنڈے پانی کی بوتل ساتھ لے جا سکتا ہے۔ لکھاہوا ہے کہ ہر نمازی صرف ایک پانی کی بوتل لے کر جائے مگر حجاج حضرات دو دو تین تین بولتیں لے جا رہے ہیں۔ایک طرف کارٹن میں کھجوریں رکھی ہوئی ہیں نمازی کھجوریں نماز کے بعد ساتھ لے جاتے ہیں۔ روم میٹس جنہوں نے دوسری مساجد میں بھی نمازیں ادا کیںنے بتایا کہ ایسا انتظام مکہ کی تمام مساجد میں موجود ہے۔

اس مسجد میں ایک نئی بات دیکھی کہ موذن کے پا س ایک ٹرانسسٹر ریڈیورکھا ہوا ہے۔ آذان سے چند سیکنڈ پہلے وہ اسے آن کرتا ہے کچھ سن کر پھر آذان دیتا ہے۔معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ ایسے ہی ٹرانسسٹر ریڈیومکہ مکرمہ میں تمام مساجد میں رکھے ہیں موذن حضرات پہلے خانہ کعبہ کی آذان سنتے ہیں اس کے بعد آذان دیتے ہیں۔ اس مسجدمیں حج کے بارے اردو میں درس بھی ہوتا ہے۔

صاحبو! مکہ مکرمہ کسی بھی یورپی شہر یا دنیا کے کسی بھی شہر سے کم خوبصورت نہیں۔ وہاں تو شاید ضروریات زندگی خود شہروں میں ہی دستیاب ہوں اور حاصل کرنے میں آسانی بھی ہوں، موسم بھی مدد گار ہو اور زمینیں بھی زرخیز ہوں ۔ مگر مکہ مکرمہ میں تو باہر سے ضروریات زندگی لائی جاتیں ہیں۔ مکہ میں زری زمین نہیں۔ مکہ میں جدہ سے سمندری پانی لایا جاتا ہے اور صاف کر کے پینے کے قابل بنایا جاتا ہے۔ پھر بھی دنیاکی ہر چیز یہاں مارکیٹوں میں دستیاب ہیں۔یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے(باقی آیندہ)

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان
کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان(سی سی پی)
mirafsaraman@gmail.com
www.mifafsaramanfacebookcom