چینی کیمپوں میں مسلم خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی، امریکا فکرمند

Protest

Protest

چین (اصل میڈیا ڈیسک) امریکا نے چین میں ’تربیتی کیمپوں‘ میں ایغور اور دیگر مسلم عورتوں کے ساتھ منظم جنسی زیادتی اور جنسی استحصال کی خبروں پر ’انتہائی تشویش‘ کا اظہار کیا ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ چین کے سنکیانگ صوبے میں ‘تربیتی کیمپوں‘میں نسلی ایغور اور دیگر مسلم اقلیتو ں کے خلاف ہونے والی زیادتیوں کے سنگین مضمرات ہوں گے۔ اس نے ایغور اور دیگر مسلم خواتین کے ساتھ منظم انداز میں جنسی زیادتی اور جنسی استحصال کی خبروں پر ‘انتہائی تشویش‘کا اظہار کیا ہے۔

ایک برطانوی نشریاتی ادارے نے بدھ کے روز اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ چین میں ایغور افراد کے لیے بنائے گئے ‘تربیتی کیمپوں‘میں خواتین کے ساتھ منظم انداز میں ریپ کیا جاتا ہے، انھیں جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے اور ان پر تشدد کیا جاتا ہے۔

متعدد سابق قیدیوں اور ایک گارڈ نے نشریاتی ادارے کو بتایا کہ خود ان کے ساتھ اس طرح کا ہولناک تجربہ ہوچکا ہے یا وہ ایسے منظم ریپ، اجتماعی جنسی زیادتی اور اذیت رسانی کے شاہد رہے ہیں۔

امریکی محکمہ خارجہ کی ایک ترجمان نے ان خبروں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ”ہمیں ان خبروں پر انتہائی تشویش ہے۔ یہ سنکیانگ میں ایغور اور دیگر مسلم اقلیتوں کے لیے بنائے گئے ‘تربیتی کیمپوں‘ میں خواتین کے ساتھ منظم ریپ اور جنسی استحصال کے براہ راست ثبوت ہیں۔”

امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان نے سنکیانگ میں چین پر ‘انسانیت کے خلا ف جرائم اور نسل کشی‘ کے امریکی الزامات کا اعادہ کیا اور کہا ”ان مظالم نے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور ان کے یقینا سنگین مضمرات ہوں گے۔”

امریکی عہدیدار کا کہنا تھا کہ چین کو سنکیانگ میں ایغور اقلیتوں پر ہونے والی دیگر زیادتیوں کے علاوہ جنسی زیادتی کے ان الزامات کی بین الاقوامی مشاہدین کے ذریعہ فوری اور آزادانہ تفتیش کی اجازت دینی چاہیے۔

امریکی عہدیدار نے ‘مضمرات‘ کے حوالے سے کوئی وضاحت نہیں کہ تاہم کہا کہ امریکا اپنے دیگر حلیفوں کے ساتھ ان زیادتیوں کی مذمت کرے گا اور ”اس کے لیے قصور وار افراد کا احتساب کرنے نیز مستقبل میں اس طرح کے استحصال کو روکنے کے لیے تمام مناسب ذرائع پر غور کرے گا۔”

سابق صدر ڈونلد ٹرمپ کی انتظامیہ نے سنکیانگ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث چینی عہدیداروں اور کمپنیوں کے خلاف پابندیاں عائد کردی تھیں۔ نئے صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے ذمہ داری سنبھالنے کے بعد کہا تھا کہ وہ سنکیانگ اور دیگر معاملات کے حوالے سے سخت موقف برقرار رکھے گی۔

چین سنکیانگ میں کسی بھی طرح کی زیادتی کے الزامات کی تردید کرتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ وہاں تعمیر کردہ عمارتوں میں ایغور مسلمانوں کو ووکیشنل ٹریننگ دی جاتی ہے تاکہ انہیں اسلامی انتہا پسندی اور علیحدگی پسندی سے باہر نکلنے میں مدد مل سکے۔

چینی وزارت خارجہ کی ترجمان وانگ وین بین نے برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے ‘اسے حقائق سے بالا تر‘ قرار دیا اور الزام لگایا کہ جن لوگوں سے اس سلسلے میں انٹرویو کیا گیا وہ متعدد مرتبہ جھوٹی اطلاع فراہم کرنے میں مدد گار پائے گئے ہیں۔

گزشتہ برس ایک جرمن محقق نے چین پر الزام لگایا تھا کہ سنکیانگ میں مسلم عورتوں کو زبردستی بانجھ بنایا جا رہا ہے، انہیں حمل ساقط کرنے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے اور ڈرا دھمکا کر فیملی پلاننگ کرائی جاتی ہے۔