چوبارہ میں سفاکیت کا واقعہ

Chobara Incident

Chobara Incident

عرصہ پہلے میرے ایک دوست نے اپنی سخن شناسی کو لفظوں کی زبان دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہاں یہ خوشی کی بات ہے کہ زندہ ہیں آدمی افسوس ہے تو بس یہی کہ انساں مر گئے یہ سخن شناسی شاید اُس سفاکانہ فعل کی عکاس ہے جس سے صحرا کے ریگزار لہو لہو ہو گئے میں ظلم کی انتہائوں کو چھوتے اُن تینوں سفاک کرداروں کو درندہ نہیں لکھوں گا کہ درندوں کے اصول ہوتے ہیں ضابطے ہوتے ہیں اور اپنی جبلت متعین کرنے کیلئے وقت ہوتا ہے شیر کا پیٹ بھر جائے تو وہ حملہ نہیں کرتا ہوا کے تیز جھونکوں میں مینا اپنے گھر کو بھول کے کوے کے انڈوں کو تھام لیتی ہے گھونسلے سے جب کوئی بچہ گرتا ہے تو سارا جنگل جاگ جاتا ہے سیلاب آجائے تو لکڑی کے تختے پر سانپ چیتا اور بکری ایک ساتھ ہوتے ہیں مگر وہ سفاک جنہوں نے اشرف المخلوقات کے چہرے پر ایسی خراشیں چھوڑیں اُنہیں دنیا کے کسی بھی دھلائی گھر میں دھویا نہیں جا سکتا،انسانیت کے چہرے سے مٹایا نہیں جاسکتا کی جبلت جاگنے کا کوئی وقت نہیں۔

والدین کی ناموس پر پائوں رکھ کر بھاگنے والی عورت اسی حشر سے دوچار ہوا کرتی ہے ایک دانشور کی اس دائمی سچائی کو نہیں بھلایا جا سکتا کہ آپ عورت کے ساتھ کتنی بھی عقل و دانش کی باتیں کریں کیسے بھی دلائل کیوں نہ دیں اگر اُس کی مرضی نہیں ہے تو وہ اس منطق کو کبھی قبول نہیں کرے گی اُس کے ذہن کے اندر اپنی منطق کا ایک ڈرائنگ روم ہوتا ہے جسے اُس نے اپنی مرضی سے سجایا ہوتا ہے اور وہ اُسے روشن کرنے کیلئے باہر کی روشنی کی محتاج نہیں ہوتی اس لیئے وہ کسی عقل و دانش اور دلائل کے معاملے میں مانگے کی روشنی پر ایمان نہیں رکھتی اُس نے جو فیصلہ کر لیا ہوتا ہے۔

وہی اس مسئلے کا واحد اور آخری حل ہوتا ہے مزمل بی بی نے بھی والدین کی ناموس پر پائوں رکھ کراپنی مرضی کا فیصلہ کیا بابر دریا کے پار تھا اور ریاست کے راجے کا محل دریا کی دوسری طرف رات گئے راجہ کی حسین و جمیل بیٹی دریا کے پار اُتری اور بابر کی خواب گاہ میں پہنچ گئی بابر نے جب لڑکی پر پہلی غیر متوقع نگاہ ڈالی تو اُس کا حسن دیکھ کرکچھ دیر کیلئے متحیر رہ گیا پھر اچانک اُسے خیال آیا کہ وہ تو ایک مسلمان ہے اور لڑکی غیر مسلم حریف راجے کی بیٹی کے ننگے سر پر کپڑا رکھا اور اور اتنی رات گئے آنے کا ماجرا پوچھا لڑکی بولی تمہاری بہادری کے قصے سنے اور آج تمہیں دیکھا کہ تم بہادر ہی نہیں خوبصورت بھی ہو تم سے شادی کرنا چاہتی ہوں ورنہ دریا میں چھلانگ لگا کر جان دے دوں گی۔

اُس کے فیصلہ پر ایک لمحہ کیلئے بابر گھبرایا مگر دوسرے ہی لمحے سنبھل گیا اُسے ایک علیحدہ خواب گاہ میں بھیجا صبح جب اُٹھا تو لڑکی اُس کے سامنے آکھڑی ہوئی بابرکی نظر اچانک اُس کی گردن پر پڑی تو وہاں زخم کا ایک نشان نظر آیا ماجرا پوچھا تو بتایا کہ رات کو درخت کا ایک پتہ میری گردن کے نیچے آگیا اور یہ اُس پتے کی رگڑ سے یہ زخم بن گیا بابر نے اتنا نازک ہونے کی وجہ دریافت کی لڑکی بولی میرا باپ مجھے بہت پیار کرتا ہے اور اُس نے مجھے انڈے کی زردی پر پالا ہے میں اس لئے نازک ہوں بابر نے اُس کی گردن اُڑا دی سپاہی دور حیران کھڑے تھے ماجرا پوچھنے کی ہمت کسی میں نہ تھی بالآخر بابر اُن کے ارادے کو بھانپ گیا کہا اس کے باپ نے اسے کتنی محبت سے پال پوس کر جوان کیا مگر یہ اُس محبت ِ پدری کو قتل کرکے بھاگ آئی اسے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔

Hazrat Muhammad PBUH

Hazrat Muhammad PBUH

بے حیائی کے اس معاشرے میں مجھے حیا کی وہ انتہا یاد آ رہی ہے جب حضرت ام خلاد کا بیٹا ایک غزوہ میں شہید ہو گیا ماں تھیں چین نہ آیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے پاس آئیں مگر اس حال میں کہ چہرے پر نقاب پڑی ہوئی تھی صحابہ نے حیرت کے ساتھ کہا اس وقت بھی تمہارے چہرے پر نقاب ہے (یعنی بیٹے کی شہادت کی خبر سن کر تو ایک ماں کو تن بدن کا ہوش نہیں رہتا اور تم اس اطمینان کے ساتھ باپردہ آئی ہو )جواب میں ایک شہید بیٹے کی ماں نے فرمایا میں نے اپنا بیٹا تو ضرور کھویا مگر اپنی حیا تو نہیں کھو دی زندگی میں دو افراد کا بہت خیال رکھنا پہلا وہ جس نے تمہاری جیت کیلئے اپنا سب کچھ ہار دیا یعنی تمہارا باپ اور دوسراوہ جس کی دعائوں سے تم سب کچھ جیت گئے یعنی تمہاری ماں یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ نیلی فلمیں وطن عزیز میں نوجوانوں کیلئے وہی کردار متعین کر رہی ہیں جو کردار مزمل بی بی کے جسم کو کتوں کی طرح بھنبوڑتا رہا ایسے کتوں کا انجام یہ ہونا چایئے تھا کہ اُنہیں اُسی وقت گولی مار کر زندگی کی سانسوں سے آزاد کر دیا جاتا مگر شاید ایسا ناممکن تھا۔

مزمل بی بی اپنوں کی غفلت کی بھینٹ بھی چڑھی کہ رات کو جب والدہ نے کال کی تو اُسوقت رات دس بجے کا وقت تھا اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ واپسی کال بند ہو گئی بستی لقمان کے لوگ اُسے دھونڈنے نکلے اور پولیس تھانہ چوبارہ کو اطلاع دی جو بر وقت پہنچ گئی لیکن ثاقب اور مزمل بی بی کے ماضی کے کھیل کو دانستہ چھپایا گیا اور کسی نے پولیس کو حقیقت بتانے کی زحمت گوارہ نہ کی کہ مزمل بی بی ثاقب کے پاس ہوگی تب تک مزمل بی بی زندہ و سلامت تھی پولیس بالآخر کافی کوشش بسیار کے بعد واپس پہنچی اور رات تین بجے کے درمیان مزمل بی بی کے سانسوں کی مالا ٹوٹ گئی اس واقعہ سے دنیا بھر میں جگ ہنسائی ہوئی وطن عزیز کے چہرے پر ایک انمٹ داغ لگا ۔

غازی صلاح الدین کا کردار پولیس کیلئے مشعل راہ ہے کہ وہ برائی کے اُن اڈوں کا قلع قمع کرنے میں مصروف ہے جہاں حواکی بیٹی کی ناموس کا سودا ہوتا ہے اور اکثر اوقات معاشرے کے باعزت گھرانوں کی لڑکی جب کسی آشنا کی خاطر دہلیز پار کرتی ہے تو برائی کے ان اڈوں پر آکر اُسی آشنا کے ہاتھوں بک جاتی ہے اور واپسی کا اُس کے پاس کوئی رستہ نہیں ہوتا غازی صلاح الدین معاشرتی برائیوں کے ان اڈوں کے خلاف مصروف جہاد ہے اور ہماری تنقید کے تیروں کا رخ اُس کی ذات کی طرف ہے ان اڈوں پر کوئی نہ کوئی مزمل بی بی ضرور ہوتی ہے۔

M.R.Malik

M.R.Malik

تحریر : ایم آر ملک