مرسوں مرسوں پر بندہ نہ بن سوں

Debates

Debates

انٹر کالجئیٹ ڈبیٹس میں طلباء بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ایک دوسرے پر فقرے کسے جاتے۔ یہ ستر کی دہائی کی بات ہے ہم بھی شہر شہر بین الکلیاتی مباحثوں میں حصہ لینے جایا کرتے تھے۔ پنجابی مباحثے تو گویا طنز و مزاح کا مظاہرہ ہوا کرتے تھے۔ قرار داد کی حمایت اور مخالفت میں ایک ادارے کی جانب سے دو لڑکے حصہ لیتے تھے۔ فیصل آباد کے مقرر پنجابی مباحثوں میں کسی کو اٹھنے نہیں دیتے تھے البتہ ان کا ٹاکرہ جب لہوری لڑکوں سے ہوتا تو سخت مقابلے دیکھنے میں آتے۔ ہمارے دور کے سینئر مقررین میں مشہور زمانہ اکرم شیخ بھی ہوا کرتے تھے گجرانوالہ کے سلیمان کھوکھر، نوید انور نوید اور بڑے نامور طلباء تھے جو بعد میں پاکستان کی اسمبلیوں میں پہنچے۔

کالج یونینز کی بڑی کوشش ہوتی تھی کہ ہفتہ ء طلباء بڑی آن شان سے منایا جائے۔میں پنجابی مقررین کی بات کرنا چاہوں گا۔میرے ساتھ میری ٹیم میں خواجہ اسغر سعید جو یونین کے صدر بھی تھے ٹیم کا حصہ ہوا کرتے تھے۔اصغر لاہور کے ماڈرن لڑکوں کی تصویر تھا کشمیری النسل گورا چٹا تو تھا ہی،اوپر سے لہک لہک کے باتیں کیا کرتا تھا۔پتہ نہیں کس شہر میں مباحثہ تھا خواجہ اصغر سعید قرارداد کے حق میں دلائل دے کر نیچے اترا تو فریق مخالف کی جانب سے فیصل آبادی شعلہ بیان عاشق حسین عاشق نے خواجہ اصغر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:

میرے ویکھن دے وچ جھاکا ایے ایے کاکی ایے یا کاکا ایے

مجھے اس لمبی چوڑی تمہید اس لئے باندھنی پڑی کہ آج پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری جب مکلی میں سندھ فیسٹول کے اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اپنے موئنثانہ انداز کو اپنایا تو آج سے چار دہائیاں قبل ہونے والے مباحثوں کا خواجہ اصغر سعید یاد آ گیا۔مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں کے نعرے لگاتے ہوئے بلاول ایک طرف سندھ ثقافت کے پرچارک کی حیثیت سے شاہ عبدالطیف بھٹائی کی دھرتی کی نمائیندگی کا دعوی کرتے ہیں۔اس فیسٹول میں یقین کیجئے محبت کی سر زمین سندھ کا جس طرح مذاق اڑایا گیا وہ قابل مذمت ہی نہیں قابل نفرین بھی ہے۔مجھے میٹرک کے بعد کچھ عرصہ سندھ میں گزارنے کا موقع ملا۔پھر عملی زندگی میں سندھی دوستوں سے پالا بھی پڑھا میں نے محسوس کیا اس پورے تماشے میں سب کچھ تھا مگر سندھ نہ تھا۔ایک مشہور واقعہ ہے پاکستانی صنعت کاروں نے چین سے آئے ہوئے ایک وفد کو لاہور کے چائینیز ریسٹورینٹ میں کھانا کھلایا۔ چینی نمائیندے نے اپنی تقریر میں کہا آپ کے شہر کی خوبصورتی کی تعریف اپنی جگہ مگر آج پتہ چلا کہ لاہوری کھانے بھی بڑے مزیدار ہوتے ہیں۔میزبان اپنا سا منہ لے کر بیٹھ گئے کہ ہم نے تو انہیں چینی کھانا کھلایا ہے۔

سندھ فیسٹول کے پہلے روز جو کچھ ہوا اس سے سندھی بھی لاہوری میزبانوں کی طرح شرما گئے ہوں گے۔سندھ کے لوگوں کو میں نے بڑا پیار کرنے والا ،دلیر اور بہادر پایا ہے۔میرے ایک دوست ریاض میں قاضی اسحق میمن ہیں ان کی جانب جب نگاہ دوڑاتا ہوں تو مجھے دکھ ہوتا ہے کہ اس تماشے میں اس پیارے بھائی کے رہن سہن،بول چال کی کوئی جھلک نہیں نظر نہیں آتی۔گہوٹکی سے ڈاکٹر خالد مہر ،سندھ کے ہی ابوبکر میمن اور بے شمار دوستوں کا سایہ تک ڈھونڈھے نہیں ملا۔سندھی اجرک کی جس طرح توہین کی گئی،عریاں لڑکیاں کیٹ واک کرتی دیکھیں ایک بدنام زمانہ سٹیج کی ایکٹریس کے فحش ڈانس اور رقص کے دوران کسی ایک منچلے کی آمد اور بوس و کنار کا مظاہرہ۔میں سمجھتا ہوں بلاول بھٹو زرداری کو ایک پتلی کی طرح استعمال کرنے والوں نے سامنے بیٹھے ہوئے اجنبی ملکوں کے سفارتی نمائیندوں کو یہ باور کرایا ہے کہ آنے والا پاکستان اسی طرح کا بے ہودہ پاکستان ہو گا لہذہ مجھے اپنی مدد سے محروم نہ کیجئے گا۔

مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں کا نعرہ بہت اچھا ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ پہلے دور میں مولوی کو سامنے رکھ کر اسلام کو گالی دینے کا رواج اب تبدیل ہو کر طالبان کو گالی دے کر بھڑاس نکالی جا رہی ہے۔کون بد بخت اس پاکستان کو پتھر کے دور کی جانب لے جانے کی بات کرتا ہے۔طالبان جائیں باڑھ میں ہمیں ان سے کیا لینا دینا مگر بے بی بھٹو کو میں ان کالموں کے ذریعے باور کرانا چاہتا ہوں کہ وہ جس دور کو تضحیک کا نشانہ بنا رہے ہیں وہ دور روشن ترین دور ہے۔ اسلام کے آنے سے پہلے جزیرہ نما عرب میں عورتوں کے ساتھ بہت برا سلوک کیا جاتا تھا۔اس دور میں عورت کو جو حقوق اسلام نے دیے وہ انقلابی تبدیلی تھی۔اب کوئی بھی اٹھتا ہے تو شریعت کا مذاق اڑانے کے لئے ان نام نہاد طالبان کو سامنے رکھ لیتے ہیں جو اسلام کی بدنامی کا باعث بن چکے ہیں۔لبرل فسادیوں نے تو ٹی ٹی پی کو نبی اکرم صلی االہ علیہ وآلہ وسلم کا خاص نمائیندہ سمجھ لیا ہے اور اس کی آڑ میں وہ اسلام کے بہترین نام عدل اور نظام زندگی کا تمسخر اڑا رہے ہیں۔سندھی اجرک کو میں نے شرم و حیاء کے لباس کی صورت میں دیکھا ہے۔

Sindhi Cap

Sindhi Cap

مجھے تو سندھی ٹوپی کی اس خوبی کا بخوبی احساس ہے کہ نماز مین جبین کو زمین سے مس کرنے کے لئے اس میں محراب بنا دیا گیا ہے آفرین ہے میر پور متھیلو اور گہوٹکی میں گزارے گئے دنوں میں مجھے سلیمان مہر چا چا وڈیرہ محمد نوازمیں کوئی بھی ایسا شخص نظر نہیں آتا جو اس تماشے کا کردار ہو۔ میرے خیال میں سندھیوں کے ساتھ اس سے بڑی کوئی زیادتی نہیں ہو گی کہ انہیں بے باکانہ انداز مین پیش کیا گیا۔بلاول بھٹو زرداری کو جو کوئی بھی پڑھا رہا ہے غلط پڑھا رہا ہے۔ سندھ باب السلام ہے۔ آج کے ان کے خطاب میں ایک نقطہ بڑا اہم ہے اور وہ ہے کہ ہمیں تاریخ غلط پڑھائی گئی۔ اس انتہائی اہم نقطے کو مد نظر رکھتے ہوئے میں سندھو دیش کے مکھیا جی ایم سید، ڈاکٹر ایاز کے ان بیانات کی جانب جانا چاہوں گا جو ڈاکٹر پلیجو، عبدالقادر مگسی بھی کبھی کبھار جوش حب زمین میں کہہ جاتے ہیں۔ میری مراد محمد ابن قاسم کی ہے جسے سندھ کے یہ لکھاری اور سیاست دان در انداز کہتے ہیں۔

بلاول زرداری کے والد محترم اس پاکستان کے پانچ سال تک صدر بھی رہے ہیں انہوں نے ان بنیادی نقاط کو کبھی نہیں چھیڑا۔آ خر بلاول چاہتے کیا ہیں؟سندھ کے راجہ داہر کو محمد ابن قاسم نے شکست دی اور پھر وہ واپس چلے گئے مگر مسلمان مبلغین کی ایک بڑی جماعت یہاں رہ گئی جس کے توسط سے اسلام پھیلا۔ان مقدس کرنوں کے بارے میں بلاول کی زبان کیوں بند رہی۔بلٹ پروف سٹیج سے خطاب کرتے ہوئے وہ طالبان پر برستے رہے اور آپریشن کی حمایت پر اپنی چیختی چنگاڑتی زبان کا ستعمال کرتے رہے۔انہوں نے بار ہا عمران خان کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔

آج عمران خان نے بھی لاہور مین پیپلز پارٹی کو خوب لتاڑا بات ہے بھی ٹھیک کہ پیپلز پارٹی تو پورے پانچ سال اقتتدار میں رہی اس نے اس وقت وزیرستان میں آپریشن کیوں نہیں کیا؟اب ان کے پیٹ میں کیوں مروڑ اٹھ رہا ہے۔عمران خان کا خطاب اس لحاظ سے بڑا اہم ہے وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کی فوج ایک بڑے امتحان سے بچ جائے۔آج کل ویسے بھی یہ بات زیر بحث ہے کہ آپریشن میں کامیابی کا تناسب ٤٠ فی صد ہے۔اس سے تحریک انصاف کے مخالفین یہ مطلب لے رہے ہیں کہ فوج کو کمزور کیا جا رہا ہے۔ہماری تاریخ میں جو بھی آپریشن ہوئے وہ سو فی صد ناکام رہے۔اس لئے کہ اگر طاقت سے کسی کو دبا بھی لیا جائے تو دل تو جیتے نہیں جاتے۔مشرقی پاکستان کا آپریشن اس کی بڑی مثال ہے۔بلوچستان میں جتنے بھی آپریشن ہوئے اس میں ناکامی رہی۔اپنوں سے جنگیں جیتی نہیں جاتیں۔جہاں میدان سجے، اور وہ بھی دشمنوں کے خلاف تو وہاں کی جیت ،جیت کہلائی جاتی ہے۔چلو پھر بھی ایک آپشن تو ہے۔

بلاول بھٹو زرداری کے سندھ اور سندھیوں کے سندھ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔کیا یہ تسلیم کر لیا جائے کہ ٢٠١٣ کے الیکشن کے نتائج نے پیپلز پارٹی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اور نئی پیپلز پارٹی صرف سندھ کی پارٹی رہنا چاہتی ہے؟اگر ایسا ہے تو پھر آزاد کشمیر اور پاکستان کے دیگر صوبوں کے لوگوں کو پیپلز پارٹی کو آ خری سلام کہہ دینا ہو گا؟اگر ایسا ہوا تو یہ پاکستان کے لئے بہتر نہ ہو گا۔کسی زمانے میں چاروں صوبوں کی زنجیر کے نعرے لگتے تھے۔اب نہیں اب کی بار ہوائیں کو ئی نیا پیغام لا رہی ہیں۔

مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں والوں کو ایم کیو ایم کی آج کی پریس کانفرنس کو بھی مد نظر رکھنا ہو گا جو ایک بار پھر ماورائے عدالت قتل کا شور کر رہی ہے۔میڈیا اس شور کو ہوا دے رہا ہے۔ہم نہ کل کسی کے ساتھ زیادتی کے حامی تھے اور نہ آج۔ہم کسی کچے پکے قلعے کے آپریشن کے حامی نہیں ہیں مگر ربع صدی سے زاید عرصے تک بر سر اقتتدار ایم کیو ایم یہ نیا سیاپہ کس کے اشارے پر کر رہی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ایم کیو ایم اور دیگر پاکستان کی دشمن قوتیں بشمول ٹی ٹی پی پاکستان کو کمزور دیکھ کر نیزے بھالے نکال کر حملہ آور ہو چکے ہیں۔لیکن خام خیال یہ بھول رہے ہیں کہ پاکستان کی نئی نسل ایسا کبھی نہ ہونے دے گی انشاء اللہ۔

حالت یہ ہے بلوچستان میں بد امنی ہے،کراچی میں طوفان رک نہیں رہا طالبان مذاکرات انتہائی خطر ناک دور میں داخل ہو گئے ہیں ہمارے خدشات کو گورنر کے پی کے نے بھی مان لیا ہے کہ کہ باہر والے افغانستان اور پاکستان کے درمیان ایک بفر سٹیٹ بنانے والے ہیں۔ مکر کرنے والے کرتے رہیں اللہ خیر الماکرین ہے۔

Pakistan

Pakistan

میں نے دوروز پہلے بھی لکھا تھا کہ جن اس خطے سے نکلتے نکلتے دیوار گرانے جا رہا ہے۔ وہ کون سی دیوار گرتی ہے اللہ نہ کرے وہ پاکستان کی دیوار ہو۔ اس شورش میں بند کرنا ہو گی سندھ سندھ، پنجاب پنجاب مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں کی آواز سنی میرا خیال ہے مرنے سے بہتر ہے بندہ بن سوں والی بات ٹھیک ہے۔ پاکستان کے سیاست دان اپنی دنیا سے نکلیں اور سوچیں کہ ایک پاکستان ہے جو ان کی طرف دیکھ رہا ہے۔ سندھ جئے لاکھ بار جئے مگر پاکستان کو مارنے والی طاقتوں کی سازشوں پر نظر رکھیں۔ بھائی تو عالمی عدالت میں اپنے کیس لے جانے کی بات کر رہا ہے اور پاکستان دوست قوتیں اپنی الاپ رہے ہیں۔

تحریر: افتخار انجینئر افتخار چودھری